پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جارہے دوسرے ٹیسٹ کے آخری دن کے کھیل سے قبل انظمام الحق نے جب یہ کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ پہلے سیشن میں جلدی سے تین سو رنز بنا کر بھارت کر کھیلنے کا موقع دیں تو میچ میں کچھ دلچسپی پیدا ہوتی ہوئی نظر آئی۔ لیکن پانچویں دن کا کھیل ان کے پلان کے مطابق نہیں کھیلا گیا اور پاکستانی ٹیم آخر تک بلا جواز بیٹنگ کرتی رہی۔ پتہ نہیں انظمام نے اپنا فیصلہ کیوں اور کس کے ایماء پر تبدیل کیا مگر کھیل کو بے جان بناکر رکھ دیا۔ ہم تماشائیوں کی ہمت کی داد دیتے ہیں جو اس بے نتیجہ میچ کو آخر تک دیکھتے رہے۔

ہم بچپن میں جب گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے تو طاقتور فریق کمزور کو سخت گرمی میں آگے لگاۓ رکھتا تھا۔ کمزور ٹیم بےچاری منتیں کرتی کہ اب بھوک لگی ہے کھیل ختم کرکے گھر جاتے ہیں مگر طاقتور انہیں کھیل ختم کرنے کی اجازت نہ دیتا اور تب تک کھیل کو جاری رکھتا جب تک ٹيم کے سارے کھلاڑی باری نہ لے لیتے۔ اس کو پنجابی میں کہتے تھے “پدانا” یعنی دوسری ٹیم کو آگے لگاۓ رکھنا۔ 

یہی حال اس میچ میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ کیا۔ انہوں نے سوچا ہم ان کو شکست تو نہیں دے سکتے مگر کم از کم “پدا” تو سکتے ہیں۔ 

ابھی زیادہ دن نہیں ہوۓ جب آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلے جارہے ایک میچ میں جنوبی افریقہ نے آسٹریلیا کو کافی مشکل ٹارگٹ دیا جو آسٹریلیا نے حاصل کرلیا اور  جنوبی افریقہ یہ میچ ہار گیا مگر مقابلے کا مزہ آگیا۔ دراصل جنوبی افریقہ یہ سیریز ایک صفر سے ہار رہا تھا اور انہوں نے سوچا کہ اس طرح رسک لے کر ہم اس سیریز کو برابر کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔

پاکستان بھی اس طرح کا ٹارگٹ بھارت کو دے کر میچ میں جان ڈال سکتا تھا۔ اور اگر ہارنے کا ڈر تھا تو بھارت کو زیادہ مشکل ٹارگٹ دے کر اننگز ڈکلیئر کر سکتا تھا۔ میچ کو کانٹے دار بنانے کیلۓ ہم بھارت کو چھ رنز فی اوور کا ٹارگٹ دے سکتے تھے۔ اگر میچ پراپنی گرفت رکھنے کا زیادہ ہی خیال تھا تو ہم سات یا پھر آٹھ رنز فی اوور کا ٹارگٹ دے دیتے اور دیکھتے کہ بھارت اس بے جان وکٹ پر کس طرح میچ جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔

 مگر لگتا ہے ہم میں یہ ہمت رہی ہی نہیں کہ ہھارت کے خلاف تھوڑا سا بھی خطرہ مول لے سکیں۔ ہمیں نہیں معلوم اس طرح کے بے جان ٹیسٹ میچ سے ہم نے کیا فائدہ حاصل کیا سواۓ کھلاڑیوں کے اپنے ٹوٹل رنز میں اضافہ کرنے کے۔

اسی طرح کے فیصلوں نے ٹیسٹ کرکٹ کو بے جان بنا کر رکھ دیا ہے۔ پانچ دن کا کھیل اور بے نتیجہ یہ اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ اگر کھلاڑی پرانی روایات ترک کرکے نۓ لباس اور بیس بال کیپ پہن سکتے ہیں تو ٹیسٹ کرکٹ میں دلچسپی پیدا کرنے کیلۓ کچھ رسکی فیصلے بھی کرسکتے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو ایک دن ٹیسٹ کرکٹ صفحہء ہستی سے مٹ جاۓ گی۔ کرکٹ کے کاروباری لوگوں نے تو پہلے ہی ون ڈے کے بعد بیس بیس اوور کا کھیل متعارف کرا کے ٹیسٹ کرکٹ کو ختم کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ اب یہ کھلاڑیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خطرے مول لے کر ٹیسٹ کرکٹ کو زندہ رکھیں۔