ہمارے ایک محلہ دار مرے کالج سیالکوٹ کے سابق طالبعلم ہیں آج جب ہم اکٹھے کام پر جا رہے تھے تو انہوں نے ایک واقعہ سنایا۔ کہنے لگے کہ ان کا ایک ساتھی طالبعلم پسرور کے پاس کسی گاؤں سے مرے کالج پڑھنے آیا۔ وہ اتنا سادہ اور شریف آدمی تھا کہ کلاس کے سامنے بولنا تو درکنار وہ کلاس میں پروفیسر سے سوال بھی نہیں پوچھ سکتا تھا۔

جب الیکشن کا دور آیا تو کچھ شرارتی طالبعلموں کے ٹولے نے اس کیساتھ شرارت کی اور اسے کہا کہ وہ سٹوڈنٹ یونین کے الیکشن میں بطور سیکریٹری جنرل کھڑا ہو جائے۔ وہ کہنے لگا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے اور جب میں کلاسوں میں بول نہیں پاؤں گا تو لوگ مجھ پر گندے انڈے پھینکنا شروع کردیں گے۔ لڑکے کہنے لگے فکر نہ کرو اگر کسی نے گندے انڈے پھینکے تو تم دستبردار ہو جانا۔ وہ کہنے لگا سنا ہے انتخابات میں مخالف فریق گولی بھی چلا دیتا ہے۔ لڑکے کہنے لگے جب گولی چلنے لگی تو تم ان سے معذرت کر کے خاموشی اختیار کر لینا۔

انتخابی مہم شروع ہوئی تو وہی شرارتی لڑکے اس کے ساتھ تھے اور انہوں نے اسے ہر کلاس کے سامنے اس طرح تعارف کرانا شروع کر دیا “سہاڈا ساہی آوے دا، تے مٹھے چاول کھلاوے دا”۔ جب انتخابات ہوئے تو شغل شغل میں طلبا نے ساہی کو ووٹ دے ڈالے اور وہ آخر میں جیت گیا۔

کبھی کبھی آدمی بطور شغل کوئی کام شروع کرتا ہے لیکن آگے چل کر وہی کام  اس کیلیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ہم اپنے جاننے والے کی کمزوریوں کا مذاق اڑانے کیلیے اسے الٹا سیدھا ایسا مشورہ دیتے ہیں جس پر ہمارے خیال میں عمل ناممکن ہوتا ہے مگر سیدھے سادھے آدمی کی ایسے قسمت بدلتی ہے کہ ہم خود حیران رہ جاتے ہیں۔

اسی لیے کہتے ہیں کہ دشمن کو کبھی کمزور اور کسی شخص کو کبھی بدھو نہ سمجھو۔