آج پورے پاکستان ميں مسلمانوں نہ اپنے نبي کي شان ميں گستاخي کے خلاف جو پرامن احتجاج شروع کيا تو وہ ديکھتے ہي ديکھتے توڑ پھوڑ کي شکل اختيار کر گيا۔

 اب ہر طرف سے اس پرتشدد احتجاج پر لعن طعن ہو رہي ہے مگر کسي کو يہ توفيق نہيں ہوئي کہ وہ اس تشدد سے بھر پور احتجاج کي وجہ دريافت کرسکے۔

انسان کا جب ناطقہ بند کر ديا  جاتا ہے تو پھر وہ مار دھاڑ اور گستاخي کے بہانے دھونڈتا ہے۔ آپ کسي غريب کو تنگ کر کے ديکھيں چند دن کے صبر کے بعد وہ پھٹ پڑے گا اور پھر بڑے سے بڑا پھنے خان بھي ڈر کر اس کے آگے لگ جاۓ گا۔

ہميں ياد ہے کہ ايک چھوٹي ذات کے لڑکے کو چوہدريوں کا سپوت دن رات تنگ کرتا تھا اور اس نے اس کا جينا حرام کيا ہوا تھا۔ ايک دن غريب نے تنگ آکر کلہاڑا پکڑا اور چوہدري کو اس کے گھر جاکر ٹکڑے ٹکڑے کر ديا اور اس کے بہن بھائيوں کو اتني جرأت بھي نہ ہوئي کہ وہ اس کو بچا سکيں۔

يہي حال غريب مسلمانوں کا ہے۔ اگر ان کو روزگار نہيں ملے گا، مٹي کا تيل مہنگا خريدنا پڑے گا ، چيني ان کي قوتِ خيريد سے زيادہ مہنگي ہوجاۓ گي تو پھروہ بنک لوٹنے کي کوشش ميں جان قربان نہيں کرے گا تو کيا کرے گا۔ جب مہنگائي کا ناسور چولہے کي آگ بجھا دے گا تو غريب اپنا گھر بھي جلانے سے دريغ نہيں کرے گا۔جب تعليم اميروں کي باندي ہوجاۓ گي تو غريب ناچار اميروں کي گاڑياں جلا کر دل کي بھڑاس نکالے گا۔ غريب جب سوچتا ہے کہ اس کي غربت کا ذمہ دار مغرب کے سرمائيہ دار ہيں تو پھر وہ ان کے کے ايف سي اور ميکڈونلڈ کو آگ نہيں لگاۓ گا تو کيا کرے گا۔ غريب کي آہ سے تو دنيا ڈرتي ہے مگر نہيں ڈرتي تو ہماري حکومت نہيں ڈرتي۔ ہمارے حکمران سمجھتے ہيں کہ جب امريکہ ان کے ساتھ ہے تو انہيں کسي کا خوف نہيں۔ مگر وہ يہ بات بھول جاتے ہيں کہ جب عوام کسي حکمران کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہيں تو امريکہ بھي حکمرانوں کو چھوڑ کر عوام کے ساتھ مل جاتا ہے۔

اگر پرتشدد احتجاج روکنا ہے تو پھر غريبوں کي نوکريوں کا بندوبست کيجۓ اور ان کيلۓ ضرورياتِ زندگي کي اشياء سستي کيجۓ تاکہ وہ دن بھير کي محنت مزدوري کے بعد شام کوايک گلاس ٹھنڈا ٹھنڈا شربت تو پي سکيں۔