آجکل نواز شریف کے قول و فعل میں تضاد اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ چیف جسٹس ڈوگر کی بیٹی کے نمبر بڑھانے کا ایشو پکڑے بیٹھے ہیں مگر اب تک نہ انہوں نے کوئی تحریک شروع کی ہے جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا اور نہ ہی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ حکومت پر دباؤ ڈالنے کا معاملہ بھی بہت تیڑھا لگتا ہے۔ نواز شریف حکومت کی مخالفت بھی کر رہے ہیں مگر کسی عملی اقدام سے پرہیز بھی۔ وہ پرہیز تو سترہویں ترمیم کے خاتمے کیلیے اسمبلی میں بل پیش کرنے سے بھی کر رہے ہیں۔ سترہویں ترمیم کو ختم سب کرنا چاہتے ہیں مگر ہمت کر کے کوئی بلی کے گلے میں گھنٹی نہیں باندھ رہا۔ لگتا ہے مسلم لیگ ق نے بلی کے گلے میں گھنٹي باندھنے کیلیے کمر کس لی ہے۔ مسلم لیگ ق کی کمر تو آٹھ سال سے کسی ہوئی ہے۔ پہلے انہوں سترہویں ترمیم پاس کروائی اور اب اسی ترمیم کے خاتمے کیلیے بل جمع کرا رہے ہیں۔ سترہویں ترمیم کے خاتمے کیلیے حکومت خود سے کچھ نہیں کر رہی بلکہ آج ہی وزیراعظم نے کہا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کچھ کرے تو وہ اس کا ساتھ دیں گے۔ ساتھ تو حکومت کا ایم کیو ایم بھی دے رہی ہے جوجمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتی مگر وہ بھی صدر زرداری کے آمرانہ اختیارات کے خاتمے کیلیے کچھ نہیں کر رہی۔

ہمیں تو لگتا ہے ان سب لوگوں کی ڈوری کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ تبھی تو پہلے بیان کے بعد جب ڈوری والوں سے ہاتھ ملاتے ہیں تو اگلے دن بیان بدل لیتے ہیں۔ بیان تو حکومت نے بھی بھارتی حکومت کو راضی کرنے کیلیے بہت بدلے مگر بھارت کی تسلی نہیں ہوئی۔ اب نواز شریف کی تسلی پتہ نہیں کیسے ہو گی۔ کیا وہ بیانات ہی دیتے رہیں گے یا کوئی عملی قدم بھی اٹھائیں گے۔

نواز شریف کو چاہیے کہ وہ ایک دن بھی ضائع کیے بغیر سترہویں ترمیم کے خاتمے کا بل پیش کریں، اپنے وعدے کے مطابق چیف جسٹس ڈوگر کیخلاف جلو س نکالیں، اتحادی طیاروں کی بمباری کو روکنے کیلیے بل اسمبلی میں پیش کریں، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کیلیے وکلا کیساتھ ملکر بھرپور تحریک چلائیں۔ مگر وہ ایسا نہیں کر پائیں گے کیونکہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔