گکھڑ پلازہ کے جل کر راکھ ہونے کی خبر سنی تو اس سے وابسطہ پرانی باتیں یاد کر کے طبعیت بوجھل سی ہو گئی۔ یہ ستر کی دھائی کے آخر کی بات ہے جب ہم لوگ ٹیکسلہ یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھے اور شاپنگ کیلیے یونیورسٹی کی بس پر صدر راولپنڈی آیا کرتے تھے۔ اس وقت پلازہ نیا نیا بنا تھا اور اس نے کافی شہرت حاصل کر لی تھی۔ یہاں سے طالبعلم جین کی پینٹیں اور ٹی شرٹس خریدا کرتے تھے۔ ایک دو کیسٹوں کی بھی دکانیں تھیں اور ہمیں چونکہ اس وقت میوزک کا بے پناہ شوق تھا اسلیے ہم کیسٹیں یہاں سے خریدنے لگے۔ اس وقت اس پلازے نے راجہ بازار باڑے کی شکل اختیار نہیں کی تھی اور اس کی کشادگی سب کو اپنی طرف کھینچ لاتی تھی۔

دو تین سال قبل ہمیں دوبارہ گکھڑ پلازہ جانے کا اتفاق ہوا تو ہم اس کے اندر بنی چھوٹی چھوٹی دکانیں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہ تو مکمل باڑہ مارکیٹ بن چکی تھی جہاں کپڑے سے لیکر الیکٹرونکس تک ہر چیز ملتی تھی۔ گلیاں بہت تنگ تھیں اور دکانیں ایسی جیسے کھوکھے ہوتے ہیں۔ ہم چونکہ اب چھوٹی دکانوں اور تنگ گلیوں کے عادی نہیں رہے اسلیے اس وقت ہمارا تو دم گھٹنے لگا اور ہم جلد ہی پلازہ سے بناں کچھ خریداری کیے باہر نکل آئے۔ تب ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر یہاں پر خدانخواستہ آگ لگ جائے تو مال سمیت لوگوں کی جانوں کا ضیاع بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت ہنگامی حالت کی صورت میں باہر نکلنے کے راستے موجود نہیں تھے۔

یہی صورتحال کراچی لاہور جیسے بڑے شہروں میں ہے۔ تبھی تو جہاں بھی آگ لگتی ہے جان و مال کے نقصان سے بچاؤ ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہماری حکومت اس معاملے میں بالکل بےبس ہے۔ اسلیے اگر دوسری مارکیٹوں کو بھی آگ لگتی رہی تو حکومت سمیت سب لوگ دور سے بے بسی سے دیکھنے کے سوا کچھ نہیں پر پائیں گے۔ یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے کبھی عمارتوں کے ڈیزائین ہنگامی حالات میں بچاؤ کو مدنظر رکھ کر نہیں بنائے اور نہ ہی حکومت نے مالکوں کو ایسے ڈیزائین بنانے پر زور دیا۔

گکھڑ پلازہ کے مالک نے ہو سکتا ہے انشورنس کرا رکھی ہو کیونکہ جبھی تو اس نے بیان دیا ہے کہ اسے پلازہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کیلیے گورنمنٹ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں ترس تو ان دکانداروں پر آتا ہے جن کی اکثریت نے انشورنس نہیں کرا رکھی ہو گی۔ ان کا نقصان کیسے پورا ہو گا اور وہ کیسے اس کے بعد اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر پائیں گے یہ وہی جانتے ہیں یا پھر خدا جانتا ہے۔