آج باراک حسین اوبامہ نے امریکہ کے چوالیسویں صدر کا حلف اٹھا لیا۔ چلیں وہ عیسائی ہی سہی مگر ایک مسلمان کا بیٹا تو ہے ناں اور پھر اس کا مڈل نام بھی مسلم ہے۔ کیا ہوا جو اس نے اپنی صدارت کے پہلے دن کا آغاز گرجے میں عبادت سے کیا اس نے مسلمان حکمرانوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا ہے اور کرپٹ اور موروثی مسلمان بادشاہوں کو وارننگ بھی دی ہے کہ باز آ جاؤ یعنی ہمارے ساتھ دوستی کر لو وگرنہ پکڑ کیلیے تیار ہو جاؤ۔

مسلمانوں اور مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ امریکہ کا صدر ان کی طرح نہیں ہے کہ جس نے دھمکی دی اس سے مرعوب ہو گیا وہ اس وقت سپر پاور کا صدر ہے اور اس نے امریکہ سے ہی صرف وفاداری نبھانی ہے۔ کالا ہونے یا مسلمان کا بیٹا ہونے سے اس سے توقعات باندھ لینا بہت بڑی بیوقوفی ہو گی۔ وہ امریکہ کا صدر ہے اور امریکی مفادات کی رکھوالی کرنا اس کا فرض ہے۔ مسلمان اگر بنی اسرائیل کی طرح ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں اور کہیں کہ خدا ہی ان کے سارے کام کرے گا تو اس میں اوبامہ کا کوئی قصور نہیں ہے۔

ابھی تک امریکہ کو عورت اور کالے صدر کے نہ چننے کے جو طعنے دیے جاتے رہے تھے ان میں ایک طعنہ تو ختم ہوا کیونکہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک کالا صدر منتخب ہوا ہے۔

پچھلے انتخابات ميں جب ڈیموکریٹ کے کنونشن میں جان کیری کو صدرارتی عہدے کا امیدوار چنا جا رہا تھا تو یہ باراک اوبامہ ہی تھا جس نے دھواں دار تقریر کی تھی اور اگلے دن اسے رائزنگ سٹار یعنی چڑھتا سورج پکارا گیا تھا۔ چار سال بعد ہی اوبامہ نے رائزنگ سٹار بن کر دکھا دیا۔

اوبامہ کے صدر بننے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے بس حوصلے اور جہدمسلسل کی ضرورت ہے۔ اگر ایک کالے کا بیٹا جسے اس وقت گوروں کیساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی آج صدر بن سکتا ہے تو پھر کوئی بھی عام آدمی پاکستان کا صدر بھی بن سکتا ہے مگر شرط صرف جہد مسلسل اور لگن کی ہے۔