ہر آدمی کی زندگی میں کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ کیلیے اس کے ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مثلا پہلے دن سکول جانا، کسی جانور کے ہاتھوں پٹنا، کسی کے ہاتھوں بیوقوف بننا، کسی حادثے میں بال بال بچنا وغیرہ وغیرہ۔

آج ہمیں بھی ایسے ہی چند لمحے یاد آ گئے تو سوچا کیوں ناں انہیں ریکارڈ پر لایا جائے۔

ہم پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے اور دوستوں کو کرائے کی سائیکل چلاتے دیکھتے تو اپنا بھی دل بہت للچایا۔ ایک دن ہم نے گھر سے ایک روپیہ چرایا اور سائیکل کرائے پر لے کر گلیوں کے چکر لگانے لگے۔ کسی دشمن جاں نے گھر شکایت لگا دی۔ جب سائیکل واپس کر کے گھر پہنچے تو والدہ نے والد صاحب کے حضور پیش کر دیا۔ پھر کیا تھا جرم کا اقرار کیا اور سزا پائی۔ وہ سزا ہمیں آج تک نہیں بھولی۔

میٹرک کے امتحان میں ہم امتیازی نمبروں کیساتھ پاس ہوئے مگر جب ایف ایس سی کا نتیجہ نکلا اور ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے اتنے نمبر آ گئے ہیں کہ انجنیئرنگ میں داخلہ مل جائے گا تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ خوشی کا دن ہمیں آج تک یاد ہے۔

ہمارا ایک بچپن کا دوست ہوتا تھا جس سے ہم دل سے محبت کرتے تھے جو یکطرفہ تھی۔ پرائمری کے بعد ہم الگ الگ سکولوں میں چلے گئے۔ ایک سال بعد وہ کسی اور شہر میں منتقل ہو گیا اور ہمارا اس سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ بیس سال بعد جب وہ ہمیں اچانک اپنے شہر میں ملا اور ہم نے اسے پہچان لیا تو وہ لمحہ اپنی زندگی کا یادگار لمحہ بن گیا۔

ایک دفعہ ہونڈا 125 پر لاہور سے ستر کلومیٹر کی سپیڈ پر واپس گھر آ رہے تھے کہ راستے میں ناہموار سڑک کی وجہ سے ہماری موٹر سائیکل پر گرفت ڈھیلی پڑنے لگی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سڑک کا ناہموار ٹکڑا جلد ختم ہو گیا اور ہم اس دن گرنے سے بال بال بچے۔ ہم نے موٹر سائیکل سائیڈ پر کھڑی کی اور کافی دیر تک اپنی خوش قسمتی پر خدا کا شکر ادا کرتے رہے۔

نیویارک میں ایک دفعہ رات کی ڈیوٹی سے واپس آئے۔ کار پارک کرنے کے بعد ڈپلیکس میں داخل ہونے لگے تو دو لڑکے پیچھے پیچھے راہ داری میں داخل ہو گئے۔ ہم نے ان کیلیے دروازہ یہ سمجھ کر کھلا چھوڑ دیا کہ شاید وہ اوپر والی منزل میں رہتے ہیں۔ پھر کیا تھا انہوں نے پستول دکھا کر ہم سے نقدی کیساتھ ہماری چمڑے کی جیکٹ بھی چھین۔ ان سے جان کی خلاصی پر بھی ہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔

نیویارک کے ہارلم میں سٹي کالج جاتے ہوئے سب وے سے اتر کر ہم نے ایک دفعہ شارٹ کٹ راستہ پکڑ لیا۔ یہ راستہ سنسان جنگل نما پارک سے گزرتا تھا۔ ہمارے پیچھے دو کالے لگ گئے۔ انہوں نے جونہی ہمیں پکڑنے کی کوشش کی ہمیں ایک اور بزرگ کالا صبح کی سیر کرتا نظر آ گیا۔ ہم نے جلدی سے اس کیساتھ ہیلو ہائے کی اور اس کیساتھ ساتھ چلتے کالج میں داخل ہو گئے۔ اس دن بزرگ کالا ہمیں نہ ملتا تو شاید پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔ کیونکہ اس سے پہلے ہم کئی وارداتوں میں اپنے لوگوں کا جان گنوانا سن چکے تھے۔