يہ تو حقيقت ہے کہ حکومت کا کوئي بھي ادارہ ايسا نہيں کہ جس ميں حکومت مداخلت نہ کرے۔ فيڈرل پبلک سروس کميشن ايسا ادارہ تھا جس کي کچھ نہ کچھ ساکھ بحال تھي اور جس پر عوام کو اعتماد تھا کہ ساري سليکشن ميرٹ پر ہوتي ہوگي مگر موجودہ بحران جس ميں چئيرمين فيڈرل پبلک سروس کميشن کو استعفٰي دينا پڑا نے اس اعتماد کو بھي غلط ثابت کرديا ہے۔

عام طور پر تو يہي ہوتا آیا ہے کہ جب کوئي حکومتي عہديدار استعفٰي ديتا ہے تو خود کو پاکباز اور حکومت کو بےايمان ثابت کرتا ہے۔ يہي اب ہوا ہے کہ جنرل کياني نے بھي يہي ثابت کرنے کي کوشش کي ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے محکمے ميں حکومت کي بےجا مداخلت بہت بڑھ چکي تھي اور ان کواس عہدے سے جلد ہٹانے کيلۓ چئيرمين کے عہدے کي ميعاد پانچ سال سے کم کرکے تين سال کردي گئي۔

سيدھي سي بات ہے کہ آپ سمندر ميں رہ کر مگرمچھ سے بير تو نہيں ڈال سکتے۔ آپ حکومت ميں بھي رہيں اور حکومت کي مخالفت بھي کريں۔ يہ تو کوئي بھي حکومت برداشت نہیں کرے گي۔ جب آپ صدر کو کہيں گے کہ آپ کو وعدے کے مطابق صدر کا عہدہ چھوڑ دينا چاہۓ تھا تو اس کے بعد صدر آپ کے دوست تو نہيں رہيں گے۔ لگتا ہے جنرلوں کي آپس ميں ٹھن چکي تھي اور اسي وجہ سے جنرل کياني کو حکومت کے دباؤ پر استعفٰي دينا پڑا۔

حکومت کي بھي زيادتي ہے کہ سفارش پر بھرتي کرنے کيلۓ اور اپنے لوگوں کو نوازنے کيلۓ حکومت نے فيڈرل پبلک سروس کميشن سے چھوٹے گريڈز کي سليکشن کے اختيارات واپس لے لۓ۔ پھر آئي ايس آئي کي بھرتي کے اختيارات بھي ختم کرديۓ۔ اس کے باوجود ہمارے صدر اور وزيرِ اعظم يہ کہيں کہ ان کي حکومت دينداري سے کام کر رہي ہے تو کچھ شک سا ہونے لگتا ہے۔

ہمارا کلچر ہي ايسا سيٹ ہوچکا ہے کہ يہاں ايماندار حکومت کا قيام ايک بہت بڑا چيلنج بن چکا ہے اور اس چيلنج کو وہي قبول کرے گا جس کو نہ موت کا ڈر ہوگا اور نہ دنيا کا لالچ۔ وگرنہ ہر حکومت اسي طرح بےايمان اور کرپٹ ہوگي جس طرح اب ہے۔ اب دنيا اس قدر پھيل چکي ہے کہ کسي بھي علاقے ميں تبديلي لانا کوئي آسان کام نہيں رہا۔ جوں جوں وقت گزرتا جاۓ گا يہ کام اور مشکل ہوتا جاۓ گا۔

جنرل کياني نے جو بھي کہا اگر اس کا دس فيصد بھي سچ مان ليا جاۓ تب بھي حکومت کا بے ايماني ميں ملوث ہونا سچ معلوم ہوتا ہے اور اس کي کرپشن سے پاک کارکردگي مشکوک ہونے لگتي ہے۔