ہم پاکستان جاتے ہوئے اور پھر آتے ہوئے دبئی میں تین دن رکے۔ یہ ہمارا دبئی کا پہلا ٹؤر تھا۔ ہمارا پہلا امپریشن دبئی کےبارے میں یہ تھا کہ یہاں عربی انتہائی امیر اور بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں اور دنیا سے آیا ہوا مزدور طبقہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ کاروبار تمام کا تمام بیرون ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کو ہر طرح کا کھانا کھانے کو ملتا ہے یعنی عربی، ایرانی، افغانی، پاکستانی، انڈین، یورپین، چائینیز وغیرہ وغیرہ۔

کاروبار کے مواقع بہت زیادہ ہیں مگر مقابلہ بہت سخت ہے۔ ہول سیل کا کاروبار عروج پر ہے۔ کئی بازار تو صرف سونے کی دکانوں کے ہیں جہاں ہزاروں کلو گرام سونا اپنی چمک دمک سے لوگوں کی توجہ حاصل کرتا نظر آتا ہے۔ سونے کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ خریداری کرتے نظر آئے۔ چائینہ کا نقلی مال عام دستیاب ہے۔ ایپل کا آئی فون اصلی چھبیس سو درہم میں اور چائینی چھ سو میں دستیاب تھا۔ اسی طرح سکریپ اور استعمال شدہ الیکٹرونکس کی مارکیٹیں بھی ہم نے دیکھیں جو جاپانی اشیا سے بھر پڑی تھیں۔

دبئی ایئرپورٹ پر امیگریشن آفیسر نے غلط فہمی پر ہمیں خوب سنائیں۔ ہوا یہ کہ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھا ہم یہاں مستقل رہائش رکھیں گے۔ ہم نے سوچا وہ ہماری موجودہ رہائش کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ ہم نے جب کینیڈین کہا تو وہ تو برس ہی پڑا۔ کہنے لگا کہ یہ بات وہ تب سے جانتا ہے جب ہم لائن میں کھڑے تھے اور یہ پاسپورٹ سے بھی پتہ چل رہا ہے کہ ہم کینڈین ہیں۔ پھر بولا ہم کو اتنا بیوقوف مت سمجھو تم لوگ۔ ہم اس کا منہ تکتے رہ گئے۔

ایک جگہ ہمارے عزیز کسی کام سے گاڑی سے اترے اور ہمیں گاڑی پارک کرکے گاڑی میں ہی انتظار کرنے کو کہا۔ جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے ہمیں پارکنگ میں مشکل پیش آ رہی تھی کہ ایک عربی نے ہمیں باہر آنے کو کہا۔ پچھلی گاڑی کے انسگنیا کو ہلا کر بولا ہم نے گاڑی کو ٹچ کیا ہے۔ پھر گاڑی کے بونٹ کی طرف اشارہ کرکے ٹکر کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ بناں کوئی اور بات کئے اس نے ایک ہزار درہم کا مطالبہ کر دیا۔ ہم نے جب کہا کہ ہمیں تو گاڑی کو ٹچ کرنے کا کوئی سائن نظر نہیں آیا تو اس نے پولیس بلانے کی دھمکی دی۔ ہم نے جب کہا کہ بلاؤ پولیس تو وہ کھسیانا ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ بعد ميں ہم نے دیکھا کہ گاڑی کا اصل مالک آیا اور گاڑی نکال کر چلا گیا۔

اس وقت دبئی بھی ریسیشن میں ہے اور تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے بہت سارے بڑے بڑے پروجیکٹ بند ہو چکے ہیں۔ سکولوں کی فیس بڑھنے کی وجہ سے  والدین بچوں کو واپس اپنے اپنے ممالک لے جانے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دبئی میں پراپرٹی کے کرائے گرنے لگے ہیں اور قیمتیں بھی۔ ہم نے دو چار پراپرٹی ڈیلرز سے سرمایہ کاری کیلے بات کی اور سب نے انتظار کرنے کا مشورہ دیا۔

یہ تو تھے ہمارے تین دن کے دورے کے مشاہدات۔ دبئی کے رہائشی ہماری باتوں کی تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں اور اگر مزید معلومات مہیا کرنا چاہیں تو خوش آمدید۔