سیدہ شگفتہ نے قرآن کے نازک مسئلے کو چھیڑ کر پانی میں پہلا پتھر پھینکا اور پھر اجمل صاحب نے بھی اپنا حصہ ڈال دیا۔ ہم نے سوچا ہم کیوں پیچھے رہیں ۔ امید ہے باقی بلاگرز بھی اس اہم اور نازک موضوع پر نپے تلے انداز میں اپنا نقطہ نظر بیان کريں گے۔ ہمارا نقطہ نظر کافی سارا ہٹ کر ہو گا اور امید ہے قارئین ہماری بات کو مثبت انداز میں لے کر بحث کو آگے بڑھائیں گے۔

قرآن عربی میں اسلیے نازل ہوا کہ اس علاقے کی زبان عربی تھی۔ قرآن ہیبرو یا انگریزی میں بھی نازل ہو سکتا تھا کیونکہ تورات اور انجیل کی یہی زبانیں تھیں۔ خدا اگر چاہتا تو پہلے اپنے نبی کو ہیبرو یا انگریزی کی تعلیم دیتا اور پھر انہی پرانی زبانوں میں وحي نازل کرتا مگر خدا نے اپنے پیغام کو سہل اور آسان بنانے کیلیے اسے نبی پاک صلعم کی زبان میں ہی نازل فرمایا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ نہ تو آپ صلعم کو اور نہ ہی ان کے پیروکاروں کو دوسری زبان سیکھنے کی مشقت کرنی پڑی اور نہ ہی انہیں قرآن بناں سمجھے پڑھنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی پاک صلعم کے دین کو عام انسانوں نے سمجھا اور ان کے پیروکار بن گئے۔ اگر اس وقت قرآن اجنبی زبان میں نازل ہوتا تو سوچیں کہ نبی پاک صلعم کو اپنی بات لوگوں تک پہنچانے میں کتنی مشکل پیش آتی۔

مسلمانوں کو اسلام سے بیگانہ رکھنے اور ان کو اپنے دین کی سمجھ بوجھ سے دور رکھنے کیلیے جس نے بھی قرآن بناں ترجمے کے پڑھنے پر مسلمانوں کو لگایا وہ اپنی سازش میں کامیاب رہا۔ اس کی یہ سازش بھی کامیاب رہی جب اس نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھا دی کہ قرآن کو عربی میں ہی پڑھنے کا زیادہ ثواب ہے۔ اسے معلوم تھا کہ ناں مسلمان عربی سیکھ پائیں گے اور ناں انہیں قرآن میں کیا لکھا ہے اس کی سمجھ آئے گی۔ اس سازش کو کامیاب بنانے میں عام امام مسجدوں نے بنیادی کردار ادا کیا اور مسلمانوں کے بچوں کو قرآن عربی میں ہی ختم کرا کے سجمھا انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کر لی ہے۔

اب حالت یہ ہے کہ نوے فیصد سے زیادہ مسلمانوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ نماز میں کیا پڑھتےہیں اور قرآن میں کون کونسے احکامت درج ہیں جو انسان کی ترقی میں ممدومعاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ قرآن کو بار بار پڑھنے اور ٹھر ٹھر کر پڑھنے کا اسی لیے حکم ہے کہ ہر مسلمان کو قرآنی احکامات ازبر ہو جائیں اور وہ انہیں عملی زندگی میں قدم قدم پر یاد رکھے۔ ہمارے زمانے میں نوجوانوں کا آپس میں رمضان میں قرآن ختم کرنے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا اور جس نے جتنے زیادہ قرآن ختم کیے ہوتے تھے وہی معتبر قرار پاتا تھا۔ ناں ہمیں کسی نے ترجمے سے قرآن پڑھایا اور ناں ہم نے عربی سیکھنے کی سنجیدہ کوشش کی۔ ایک آدھ دفعہ عربی سیکھنے کی کوشش کی مگر وہ بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ دوسری زبان سیکھنا بہت ہی مشکل تھا۔

ہم سے اگر کوئی پوچھے یا ہمارے بس میں اگر ہو تو ہم تو قرآن اور نماز اپنی اپنی علاقائی زبانوں میں پڑھنے کا حکم دے دیں تا کہ قرآن اور نماز پڑھتے ہوئے آدمی خدا سے براہ راست مخاطب ہو اور اسے پتہ چلے کہ وہ خدا سے کیا مانگ رہا ہے اور خدا اسے کیا حکم دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے عیسائی جہاں بھی گئے انہوں نے انجیل علاقائی زبانوں میں چھاپ کر تقسیم کی جس کی وجہ سے انہیں اپنی بات سمجھانے میں آسانی رہی۔

اب اذان کو ہی لے لیں جس میں واضح طور پر اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ بہت بڑا ہے، میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور محمد صلعم اللہ کے رسول ہیں، نماز کی طرف آؤ، فلاح کی طرف آؤ، نماز نیند سے بہتر ہے، اللہ بہت بڑا ہے۔ ہم مسلمانوں میں کتنے لوگ ہوں گے جنہیں اذان کی اصل روح سے آگاہی ہو گی۔ یہی حال نماز کا ہے۔ نماز میں یکسوئی تبھی آئے گی جب نمازی کو معلوم ہو گا کہ وہ نماز میں کیا پڑھ رہا ہے۔ ورنہ وہ نماز میں اپنے دن بھر کا حساب کتاب ہی کرنے میں لگا رہے گا۔  اسی طرح قرآن کو اپنی زبان میں پڑھ کر ہی مسلمان ہدایت پا سکتا ہے ناں کہ طوطے کی طرح فر فر عربی میں پڑھ کر۔

ہمارے اس نطقہ نظر کے خلاف قارئین صرف یہی دلیل دیتے ہیں کہ ہمیں کس نے عربی زبان سیکھنے سے منع کیا ہے۔ لیکن ہمارا استدلال یہی ہے کہ نئی زبان سیکھنے کی کوفت میں کوئی بھی نہیں پڑے گا اور آسانی اسی میں ہے کہ دین کو اپنی علاقائی زبان میں پڑھا اور سیکھا جائے تا کہ ہر بات آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ پندرہ بیس کروڑ کی آبادی کو عربی زبان سکھانے سے بہتر ہے کہ اسے اسی کی زبان میں دین کی تعلیم دی جائے۔ اس کی مثال دنیاوی تعلیم ہے اور مسلمانوں کے سوا دنیا کے باقی تمام ممالک میں ان کی علاقائی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ جرمنی جاپان فرانس وغیرہ کسی نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ ہم مسلمان ہی ہیں جو دینی اور دنیاوی تعلیم اپنی علاقائی زبانوں میں حاصل نہیں کر رہے۔