کل پیپلزپارٹی کے عظیم رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی برسی منائی جا رہی ہے۔ جب بھٹو کو پھانسی دینے کا وقت آیا تو جنرل ضیاء نے تمام تعلیمی ادارے زبردستی بند کرا دیے اور ہاسٹل خالی کرا لیے۔ جس دن پولیس ہمارا ہاسٹل خالی کرانے آئی، پی ایس ایف نے زبردست مزاہمت کی مگر آخر کار سب نے ہاسٹل خالی کر دیا۔ اگلے دن ہم بس میں سوار دوسرے شہر جا رہے تھے جب خبر آئی کہ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ اس وقت ہم بھٹو کے دیوانے تھے اور ہمیں زندگی میں جتنے بھی تکلیف دہ ایام دیکھنے پڑے بھٹو کی پھانسی کا دن ان میں سے ایک تھا۔ بھٹو سے والہانہ عقیدت کی وجہ ان کی جادوئی شخصیت اور پرجوش خطابت کی خوبی تھی۔ آپ ان کی تقریر کا یہ کلپ دیکھیے اور سوچیے کہ آپ بھی اگر یہ تقریر سنتے تو ضرور بھٹو کے مداح بن جاتے۔

لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ جوں جوں ہماری آنکھیں کھلتی گئیں ہمیں بھٹو، مجیب الرحمن اور یحی خان ایک ہی ٹاٹ کے پیوند لگنے لگے۔ لیکن اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرے گا کہ بھٹو کے بعد ان کی طرح کا جوشیلا اور پرجوش تقریر کرنے والا لیڈر پاکستانیوں کو نہیں ملا۔ شیخ رشید نے کوشش کی مگر بھٹو کی خاک تک کو نہ چھو سکے۔ اس وقت حالات کی مار نے نواز شریف کو کچھ کچھ تقریر کرنے کا فن سکھا دیا ہے مگر وہ اب بھی اس میدان میں طفل مکتب ہی ہیں۔ عمران خان، مولانا فضل الرحمان، قاضی حسین احمد، پرویز الہی، یوسف رضا گیلانی، جاوید ہاشمی، جہانگیر بدر، احسن اقبال، اعتزاز احسن، الطاف حسین وغیرہ سب بھٹو کے سامنے طالبعلم معلوم ہوتے ہیں۔ بھٹو کی خطابت ہی تھی جس نے ان کو راتوں رات قوم کا نجات دہندہ بنا دیا۔ وہ اپنی اسی خوبی کی وجہ سے مشرقی پاکستان گنوانے کے باوجود بچے کھچے پاکستان کے عوام کی محبت سمیٹنے میں کامیاب رہے۔