اخبار دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سرزمین پر پہلا ڈرون حملہ چودہ جنوری 2006 کو ہوا اور تب سے اب تک 60 ڈرون حملے پاکستان کی سرزمین پر ہوچکے ہیں جن میں 14 القائدہ کے ارکان اور 687 بے گناہ پاکستانی مارے جا چکے ہیں۔ ان 60 حملوں میں سے صرف 10 ٹارگٹ پر لگے باقیوں نے بیگناہ پاکستانیوں کی جانیں لیں۔

ہم کیا تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی جنگ اندرونی مدد کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ ڈرون حملوں کے پیچھے بھی اپنے ہی لوگ ملوث ہیں جو امریکی سی آئی اے کیلیے جاسوسی کرتے ہیں۔ یہ جاسوس ہو سکتا ہے اپنی حيثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دشمنوں کو بھی ڈرون حملوں میں قتل کرانے میں ملوث ہوں مگر انہی کی غداری کی وجہ سے ڈرون بیگناہ لوگوں  کو آئے دن مار رہے ہیں۔

ابھی آج ہی القائدہ کے لوگوں نے شمالی وزیرستان میں دو لوگوں کو امریکی جاسوسی کے الزام میں قتل کر دیا ہے۔ یعنی دونوں طرف سے پاکستانی ہلاک ہو رہے ہیں اور امریکی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اپنے ہتھیار آزمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ افغانستان اور عراق کی جنگ میں ڈرون حملوں نے جنگ کو ایک نئی جہت دے دی ہے۔ پہلے ہوائی حملوں کیلیے ہیلی کاپٹر استعمال ہوتے تھے جنہیں دشمن کندھے سے چلنے والے میزائلوں سے بھی گرا لیتا تھا۔ اب اس کا توڑ ڈرون کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جب تک دشمن کو ڈرون سے نپٹنے کی ترکیب معلوم ہو گی کوئی نیا ہتھیار وجود میں آ جائے گا۔

امریکی جاسوسی میں ملوث مقامی لوگوں کے علاوہ ہماری اپنی ایجنسیاں بھی ملوث ہو سکتی ہیں یعنی اپنے لوگوں کو زندہ یا مردہ بیچ کر پیسے کمانے کی مشرف کی روایت کو موجودہ حکومت نے بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ لگتا ہے یہ روایت اب کبھی ختم نہیں ہو گی کیونکہ نہ عوام جاگیں گے اور نہ غیرت مند حکومت کے بننے کے دور دور تک امکانات ہیں۔

ایک بات ہم بھول رہے ہیں کہ جنگیں کبھی میدانوں میں نہیں جیتی جاتیں ان کے جیتنے کیلیے ہمیشہ جنگی اصول و ضوابط کی خلاف ورزی ضروری ہوتی ہے۔ اس کی مثال دوسری جنگ عظیم میں سول آبادی پر ایٹمی حملے تھے۔ اب بھی جنگ جیتنے کیلیے فوجوں کیساتھ مقابلے کی بجائے عوام کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جس کی وجہ سے قوموں کا مورال ڈاؤن ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو کمزور سمجھتے ہوئے دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہیں۔

جنگ تب تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک دشمن کے لوگوں کو اپنے ساتھ نہ ملا لیا جائے۔ ڈرون حملوں کے پیچھے بھی مقامی اور سرکاری مسلمانوں کا ہاتھ ہے۔ اگر آج لوگ غداری سے توبہ کر لیں تو ڈروان حملے رک سکتے ہیں مگر ایسا کبھی نہیں ہو گا کیونکہ ہم لوگوں کے کردار ابھی اتنے پختہ نہیں ہوئے۔