جنگ کے کالم نگار ارشاد حقانی نے گیارہ سال قبل ایٹمی دھماکے کرنے چاہیے تھے یا نہیں، کی جو بحث چھیڑی تو ہر کسی نے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ ارشاد حقانی صاحب نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی تھی اور اب جبکہ انہی ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت پاکستان کیلیے لمحہ فکریہ بنا دی گئی ہے تو حقانی صاحب اسے اپنے حق میں ایک نقطے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

ہم نے خود اس وقت ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں اسرائیل کی طرح ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اس کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ بھارتی دھماکوں کی آڑ میں اسے دنیا میں رسوا کرکے خود کو معصوم ثابت کرنا چاہیے۔ لیکن اب ثابت ہوتا ہے کہ اگر نوازشریف دھماکہ نہ کرتے تو قوم واقعی ان کا دھماکہ کر دیتی۔ دھماکہ تو بعد میں ویسے ہی ان کا ہو گیا تھا مگر قوم مطمن ضرور ہو گئی۔ بعد میں کہتے ہیں انہی ایٹمی دھماکوں نے بھارت کو کئی مواقع پر پاکستان پر حملہ آور ہونے سے باز رکھا۔

مجیب الرحمن شامی، عرفان صدیقی اور نذیر ناجی نے اپنے کالموں میں اپنے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے۔ مجیب الرحمن شامی کے کالم کے جواب میں ارشاد حقانی صاحب نے ایک اور کالم لکھ کر بحث کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ارشاد حقانی صاحب نے ایک کالم میں نوائے وقت کے مجید نظامی صاحب کا استدلال بھی شائع کر کے دوسرے فریق کو اپنا نقطہء نظر پیش کرنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ تمام کالم نگاروں نے اپنی صفائی میں لکھا ہے مگر انہوں نے قاری کے سامنے تاریخ کھول کر رکھ دی ہے۔

ڈاکٹر قدیر صاحب نے اپنے کالم میں ایٹمی دھماکوں کی یاد دلائی ہے اور پرویز مشرف کے دوغلے پن کو اجاگر کیا ہے اور یہ ہے بھی سچ یعنی جس شخص نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اس کو جنرل نے طالبان کی طرح پہلے گلے لگایا اور پعد میں اتحادیوں کے کہنے پر نظربند کر دیا۔

بی بی سی کے صحافی محمد حنیف نے اپنے کالم ایٹم بم اور جہیز میں اس بحث کو آگے بڑھایا ہے۔

کالم نگار ہارون الرشید نے بھی اپنا نقطہ نظر اپنے کالم ارے صاحب، ارے صاحب میں بیان کیا ہے اور  ارشاد احمد حقانی نے اپنے اگلے کالم ارے صاحب، ارے صاحب میں اس کا جواب دینے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔