مولانا عالم اور امیر عزت کی ہلاکت کی خبر کو تمام اخبارات نے جلی شہ سرخیوں سے شائع کیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایسے لگتا ہے مولانا عالم اور امیرعزت کو مبینہ شدت پسند مقابلےمیں قتل کیا گیا ہے۔ اس کا سب سےبڑا ثبوت یہی ہے کہ نہ تو ان کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اور نہ ہی فوجی ترجمان نے ان کے قتل پر تفصیل سے بات کرنا مناسب سمجھا۔

اگر اس قتل کو جنگ کے پس منظر سے دیکھا جائے تو عام پبلک کو یہ قتل جائز لگے گا اور مولانا عالم اور امیر عزت کی ہلاکت کو قتل کہنے پر قارئین ہمیں سرزنش بھی کریں گے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ لوگ قتل ہوئے کیونکہ ان کی ہلاکت کی تفصیلات چھپائی گئی ہیں۔

جیسا کہ سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ جس گاڑی میں دونوں کو لے جایا جا رہا تھا وہ سڑک کنارے بم سے تباہ ہوئی۔ جب کہ اس سے پہلے صرف یہی کہا گیا کہ دونوں اصحاب شدت پسندوں کیساتھ مقابلے کے دوران ہلاک ہوئے۔ کسی عینی شاہد کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کو بولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یعنی مولانا عالم اور امیر عزت کو دشمن سمجھ کر دفن کر دیا گیا اور ہلاکت کو راز ہی رکھا گیا۔

سنا یہی ہے کہ یہ دونوں اصحاب تشدد کے حامی نہیں تھے اور اسی وجہ سے سرحد حکومت کے ترجمان نے ان کے قتل کو سازش قرار دیا ہے۔ اب حقیقت کیا ہے یہ آپریشن میں ملوث فوج جانتی ہے یا پھر دونوں لاشوں کو دفن کرنے والے مگر ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ دونوں کی لاشوں کو دیکھنے کی بھی اجازت دی گئی کہ نہیں۔

اگر تو یہ جنگ تحریک نفاذ شریعت کیخلاف لڑی جا رہی ہے تو پھر مولانا عالم اور امیر عزت کی موت بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگر جنگ شدت پسندوں کیخلاف لڑی جا رہی ہے تو پھر ان دو امن پسندوں کا قتل آپریشن کی بہت بڑی ناکامی ہے۔