پچھلے دنوں اصل حکمرانوں کے نمائندے جسے ہم وائسرائے بھی کہ سکتے ہیں کے دورے کی آخری پریس کانفرنس میں ہمارے تین نوابوں کو ہاتھ باندھے دیکھ کر ہم پاکستانیوں کو تپ سی چڑھ گئی اور ہم نے خوب ان کی خبر لی۔ ہماری نظر میں تو یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ہم بھی جب چھوٹے تھے تو شہر کے بڑوں کیساتھ فوٹو کھنچوانے کیلیے اسی طرح سریاں باہر نکالا کرتے تھے جس طرح مشرف دور میں ان کے خریدے ہوئے سیاسی بونے کیا کرتے تھے۔threevsoneruler

اس تصویر میں تو سریاں نکالنے کی غلاموں کو ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ ہجوم جو نہیں تھا۔ لگتا ہے ہاتھ باندھنے کی پریکٹس غلاموں کو خوب ہو چکی ہے مجال ہے جو کہیں ذرا سی بھی جھول نظر آتی ہو۔

یہ دستور بہت پرانا ہے کہ غلام اپنے آقا کیساتھ فوٹو کھنچوانا اعزاز سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے ہر غلام چاہے حکومت میں ہے یا حزب اختلاف میں اپنی تصویر آقا کیساتھ کھنچوا کر اور اسے اخبار کے صفحہ اول پر دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اگر وہ حکومت میں ہے تو وہ اس معرکے کے بعد سمجھتا ہے کہ اب اس کی حکومت پکی ہو گئی اور اگر حزب اختلاف میں ہے تو سمجھتا ہے کہ ابھی وہ حکمران بنا کہ بنا۔

اس لائن میں ایک اور آدمی بھی لگ گیا ہے اور وہ آدمی کوئی عام سا آدمی نہیں ہے بلکہ پوری قوم کا مشترکہ چیف جسٹس ہے۔ وائسرائے کی اس سے ملاقات کی کیا وجہ تھی ہم نہیں سمجھ سکے۔