مسٹر کنفیوژ نے ایک تبصرے میں مصرع جوڑا ہے ہم نے سوچا کیوں ناں اس پر تک بندی کی جائے۔ وارث صاحب سے معذرت کیساتھ کیونکہ ان کے علم عروض کے اسباق کے باوجود ہم ابھی تک باوزن شاعری نہیں کر پائے۔ آپ بھی چاہیں تو اپنی تک بندی کے جوہر دکھا سکتےہیں۔ عرض کیا ہے۔

میرے وطن کی تقدیر چند حکمراں حقیر
غلام ہیں غیروں کے ہمارے سلطاں حقیر

تقریروں سے سراب دکھائیں یہ جادوگر
میرے شہر کے ہیں سارے سیاستداں حقیر

قوم کو بیچ کر ظالم تجوریاں بھر لے
ایوانوں میں بیٹھا ایسا شیطاں حقیر

دشمن کو چھوڑ اپنوں کو فتح کرے
ایسی بزدل فوج کا ہر نوجواں حقیر

رشتوں کو تولے دولت کے ترازو میں
جانور سے بھی بدتر لالچی انساں حقیر

جہاں پچھاڑ دے طاقتور لاچار کو جاوید
وہ ملک حقیر ہوتا ہے، وہ میداں حقیر