آج کے اخبارات میں ایک سے زیادہ دلچسپ خبریں ہیں جن پر تبصرہ کئے بغیر رہا نہیں جا رہا۔
پہلی خبر پنجاب اسمبلی میں دھینگا مشتی کی ہے۔ بھلا کوئی خاتون رکن اسمبلی سے پوچھے کہ ایوان میں بینر لہرانا کہاں کی جمہوریت ہے۔ بی بی کو چاہیے تھا کہ نکتہ اعتراض پر بولتیں اور دل کی بھڑاس نکالتیں۔ اس پر طرہ یہ کہ چوہدری کہلوانے والے ایک خاتون سے الجھ پڑے۔ ہم نے تو سن رکھا تھا کہ مرد عورتوں سے لڑنا اپنی توہین سمجھتے ہیں شاید چوہدری عبدالغفور کو اس بات کا علم نہ ہو۔
دوسری خبر بابراعوان کی ہے جو ڈاکٹر بھی کہلواتے ہیں اور پارلیمانی وزیر قانون بھی ہیں مگر انہوں نے یہ کہ کر کہ قانون میں ترامیم کرنا وقت ضائع کرنے والی بات ہے اپنی ہی بے حرمتی کر دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی جھوٹ کہا کہ قانون میں ترامیم کیلیے دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ یہ مانا کہ تمام ترامیم کو ایک پیکج میں منظور کروانا ناممکن ہو گا مگر تمام ترامیم کو ایک ساتھ منظور کرانا ضروری نہیں ہے۔ جن ترامیم پر تمام پارٹیوں کا اتفاق ہے وہ تو آسانی سے پاس کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر سترہویں ترمیم کا خاتمہ، آمریت کا راستہ روکنا اور پی سی او کے تحت ججوں کا حلف اٹھانا۔
تیسری خبر زیادہ بچوں پر ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ خاتون رکن اسمبلی فردوس عاشق ایوان نے کہا کہ اس کا آغاز ارکان پارلیمنٹ سے ہونا چاہیے۔ شکر ہے فردوس اعوان نے پارلیمنٹ میں سروے نہیں کرایا۔ ورنہ ہر ممبر کے سات آٹھ بچے تو ضرور ہوتے۔ معزز ممبر اسمبلی کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان مسلمان ملک ہے اور یہاں کوئی بھی حکومت ایسا قانون پاس کرنے کی جرات نہیں کر سکتی کیونکہ تمام مولوی حکومت کیخلاف ہو جائیں گے اور پھر اسے پاسپورٹ کے خانے میں مذہب کا خانہ بحال کرنے کی طرح یہ تجویز بھی واپس لینا پڑے گی۔