پٹرول سمیت تیل کی قیمتیں بڑھانے کی مندرجہ ذیل وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔
چیف جسٹس کے حکم سے جو قیمتیں کم کی گئی تھیں ان کا بدلہ چکایا جائے۔ اب دیکھتے ہیں چیف جسٹس اس حکم عدولی پر کیا کرتے ہیں۔ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں سوائے چپ رہنے کے۔
ابھی سرکاری ملازمین کی جو تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں ان کی ادائیگی وزیراعظم یا صدر نے اپنی جیب سے تھوڑی کرنی تھی۔ اس رقم کا بندوبست تو کسی نہ کسی طرح کرنا ہی تھا۔
حکومت نے جو جنگ اپنوں کیخلاف چھیڑ رکھی ہے اس کے ایندھن کا بندوبست اب صرف اتحادیوں نے تو نہیں کرنا تھا۔ اس میں اپنا حصہ ڈالنے کیلیے تیل کی قیمتیں بڑھانا ضروری تھا۔
تیل کی غیرملکی کمپنیاں جتنی آسانی سے اور جتنا زیادہ منافع پاکستان سے کما رہی ہیں اتنا شاید بہت کم ملکوں سے کما رہی ہوں گی۔ ان کمپنیوں کو مزید نوازنے کیلیے بھی تیل کی قیمتیں بڑھانا ضروری تھا۔
جب حکومت نے دیکھا کہ لوڈشیڈنگ کیخلاف مظاہرے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے اور نہ ہی اس صورتحال سے حزب اختلاف نے کوئی فائدہ اٹھایا ہے تو پھر تیل کی قیمتیں بڑھانے میں کوئی مزائقہ نہیں تھا
حکومت نے جو سینکڑوں بلین کا قرضہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے لے رکھا ہے اسے حکمرانوں نے تھوڑا ادا کرنا ہے۔ وہ عوام کے خون پسینے سے ہی ادا ہو گا جو تیل کی قیمتیں بڑھا کر بہایا جائے گا۔
ایک وقت تھا بجٹ کی تیاری بند کمروں میں ہوتی تھی اب بجٹ کی تیاری کھلے عام آئی ایم ایف کی نگرانی میں ہوتی ہے کیونکہ اصل فیصلے سالانہ بجٹ میں نہیں ہوتے بلکہ وقفے وقفے سے پورا سال ہوتے رہتے ہیں۔ اب اگر تیل کی قیمتیں بجٹ میں بڑھائی جاتیں تو بھونچال آ جاتا اب بجٹ اسمبلی سے پاس کرانے کے بعد ہلکا سا جھٹکا بھی نہیں لگے گا کیونکہ نہ کوئی اسمبلی میں احتجاج کرے گا اور نہ ہی کوئی جلوس نکالے گا۔
جیے ایم کیو ایم، جیے مسلم لیگ ن، جیے مسلم لیگ ق، جیے بھٹو، جیے ذرداری۔