پانچ جولائی کو جنرل ضیاء نے بھٹو کی جمہوری حکومت کو ہٹا کر ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ مشرف کے سات نکات کی طرح جنرل ضیاء کا نوے دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ ایفا نہ ہوا اور وہ ملکی تاریخ‌میں طویل ترین مارشل کا ریکارڈ قائم کر گیا۔
جنرل ضیاء کے بدقسمت ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کوئی نہیں‌ہے کہ اس کا خاندان بھی سرعام اس کیلیے دعائے مغفرت کہنے سے ڈرتا ہے۔ اس کی جھولی میں بیٹھ کر سیاستدان بننے والے اور اس کی حکومت میں‌شامل پی این والے آج اس کے اقتدار کی سالگرہ منانے کا نام نہیں‌لیتے۔ حتیٰ کہ جنرل ضیاء کا اپنا بیٹا پانچ جولائی کے موقع پر اس کے حق میں بیان نہیں‌دے سکا۔
یہ حقیقت ہے کہ آمر کا ساتھ دینے والے ہمیشہ ذلیل ہوئے ہیں اور اکثر آمروں کے ہاتھوں ذلیل ہوئے ہیں۔ جنرل ایوب کا ساتھ دینے والے جنرل ضیاء کے ہاتھوں ذلیل ہوئے اور جنرل ضیاء کا جن لوگوں نےساتھ دیا وہ جنرل مشرف کے ہاتھوں ذلیل ہوئے اور جنرل مشرف کا ساتھ دینے والے اسی طرح گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ان کو ذلیل کرنے کیلیے کوئی اور آمر ملک پر قابض ہو جائے۔
ویسے تو اب بھی ملک پرایک جمہوری ڈکٹیٹر ہے جس کے پاس وہی اختیارات ہیں جو آمر مشرف کے پاس تھے اور وہ ان اختیارات کو طوالت دینے کیلیے کمیٹی بنانے اور بیانات دینے کی راہ پر گامزن ہے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے جس طرح آج جنرل ضیاء کیلیے دعائے خیر کہنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں کل اس کیلیے بھی کوئی ہاتھ نہیں نہیں ‌اٹھائے گا۔ مگر اسے ان ہاتھون کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اسے آخرت پر یقین ہی نہیں۔ اگر اسے آخرت پر یقین ہوتا تو اپنی ریاست میں اندھیری گرم راتوں میں‌بھوکے پیٹ سونے والوں کے بارے میں سوچ سوچ کر اس کی نیندیں‌حرام ہو چکی ہوتیں۔
ڈاکٹر صفدر محمود کا کالم پڑھ کر اس پوسٹ میں تھوڑا سا اضافہ ناگزیر ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے پانج جولائی کے موقع پر صدر ذرداری کے اس تاریخی جملے میں ترمیم کی درخواست کی ہے۔
صدر صاحب نے فرمایا “آمر اگر مر بھی جائے تو اسے سزا ضرور دینی چاہیے”۔
ڈاکٹر صاحب نے بیان میں اس طرح کی ترمیم کرنے کی گزارش کی ہے۔ “آمر اگر مر بھی جائے تو بھی اسے سزا دینی چاہیے لیکن اگر وہ زندہ ہو تو اس سے سمجھوتہ کر لینا چاہیے اور اس کی پالیسیوں کو اپنے لیے مشعل راہ بنا لینا چاہیے”۔