ہماری نظر سے کالم نگار ارشاد حقانی کا کالم نہیں گزرا مگر شکریہ ابوشامل کا جنہوں اس موضوع کو اپنی تحریر کا حصہ بنایا۔ اس کے بعد میں ہم نے جنگ کے کالم نگار سفیر احمد صدیقی کا کالم بھی پڑھا۔
عبدالقادرحسن جو بہت دھیمے مزاج کے آدمی ہیں بھی ارشاد حقانی پر ایسے برسے کہ صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے۔
موضوع اچھا ہے اور ہم نے سوچا کیوں ناں اپنے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم بھی اپنا حصہ ڈال دیں۔ ہم گاؤں میں پیدا ہوئے پھر پرائمری سکول کے زمانے میں ایک قصبے میں رہائش اختیار کر لی۔ وہیں سے میٹرک کیا اور ایف ایس سی شہر کے کالج سے کی۔ یونیورسٹی بھی ایک قصبے میں تھی اسلیے تعلیم کے دوران ہمیں کسی بڑے شہر میں رہنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہاں نوکریاں ہم نے لاہور، گوجرانوالہ اور واہ کینٹ جیسے بڑے شہروں میں کیں۔ اس کسیاتھ ساتھ کراچی، لاہور اور پشاور کو بھی قریب سے دیکھا۔
زندگی کا نچوڑ یہی کہتا ہے کہ جو آدمی اپنی مادری زبان میں سیکھتا ہے وہ بدیسی زبان میں نہیں سیکھ سکتا۔ پاکستان میں پہلے ہی علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں اور اردو قومی زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ پنجاب میں تعلیم کا ذریعہ اردو ہے جو پنجابی سے کافی ملتی جلتی ہے مگر پھر بھی اسے سیکھنے کیلیے پنجابی بچوں کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ پٹھان، بلوچ اور سندھی بچوں کیلیے اردو سیکھنا پنجابیوں سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہوگا۔ ہمیں یاد ہے ہماری کتابیں اردو میں ہوا کرتی تھیں مگر استاد پنجابی میں پڑھایا کرتے تھے۔ یقین مانیں کالج میں استاد سے سوال پوچھتے ہوئے ہم اس لیے جھجھک جاتے تھے کہ ہمیں اردو پوری طرح بولنی نہیں آتی تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کی اکثریت کا یہی مخمصہ ہو گا کیونکہ پاکستان کی نوے فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔
اس وقت قومی سطح پر اردو اور علاقائی زبانوں کو نظر انداز کر کے انگریزی کی پذیرائی زیادہ کی جا رہی ہے۔ وجہ صرف یہی ہے کہ یہ ہمارے بدیسی آقاؤں کی زبان ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی انگریزی سیکھیں تا کہ عوام کی شخصیت کو انگریزی زبان میں چھپے لٹریچر اور الیکٹرونکس میڈیا کی مدد سے بدلنا آسان ہو۔
ہمارے خیال میں اردو، انگریزی اور عربی کے چکر میں پڑنے کی بجائے سب سے پہلے حکومت کو ایک سمت کا تعین کرنا چاہیے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اس نے اردو میں نصاب تعلیم نہیں چھاپنا اور اسے انگریزی میں ہی پڑھانا ہے تو پھر اردو عربی کے چکر سے آزاد ہو جانا چاہیے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اس نے اپنی الگ زبان سے اپنا قومی تشخص قائم رکھنا ہے تو پھر اسے انگریزی سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ نصاب تعلیم کیلیے ملک میں صرف ایک زبان رائج ہونی چاہیے اور باقی زبانیں اختیاری یعنی اگر کسی کا جی چاہے سیکھ لے اور نہ چاہے تو نہ سیکھے۔ میٹرک تک اردو، آگے انگریزی اور عربی میں مذہبی مواد کا امتزاج بچے کے ذہن کی نشونما روک دیتا ہے۔
ہمارے خیال میں اگر ہم نے اپنے بچوں کو پاکستان میں ہی نوکریاں دینی ہیں تو پھر ہماری قومی زبان اردو کو فروغ دینا چاہیے اور اگر ہم نے گریجوایٹس کو تعلیم دے کر اپنے آقاؤں کے دیس بھیجنا ہے تو پھر ہمیں اردو کو بھول کر انگریزی کو قومی زبان کا درجہ دے دینا چاہیے۔ عربی بھی لازمی کی بجائے اختیاری ہونی چاہیے اور اسے طلبا پر زبردستی تھوپنا زیادتی ہو گی۔
یہ مانا کہ دنیا گلوبلائزیشن میں بدل کر سمٹ چکی ہے اور ہر طرف انگریزی کا دور دورہ ہے مگر ان ملکوں کی مثال ہمیں سامنے رکھنی چاہئیں جو ابھی تک اپنی قومی زبانوں میں ترقی کر رہے ہیں یعنی چین، جاپان، فرانس، جرمنی وغیرہ۔ اس لیے یہ کہنا کہ انگریزی ترقی کیلیے ضروری ہے غلط ہو گا ہاں اگر ہم اردو کو ذریعہ تعلیم مصیبت سمجھتے ہیں تو پھر انگریزی اپنا لیں۔ مگر خدارا ایک ہی دفعہ ایک زبان اپنا لیں اور ہمیشہ کیلیے اس مسئلے سے آزاد ہو جائیں۔ یہ چوں چوں کا مربع ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔