ايک اور مزہبي ليڈر حکومت کي لاپرواہي سے شہيد کر ديا گيا۔ علامہ حسن ترابي ايم ايم اے کے ليڈر تھے اور يہ ايم ايم اے کا اتحاد ہي ہے جس کي وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات ميں کمي آئي ہے۔ اسي اتحاد کو توڑنے کيلۓ اس کے بڑے بڑے ليڈروں کو نشانہ بيايا جارہا ہے تاکہ ملک ميں پھر سے فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوجائيں۔ ليکن خدا کا شکر ہے کہ پچھلے چند دہشت گردي کے واقعات ميں مختلف فرقوں کے ليڈروں کي شہادت کے باوجود دہشت گرد اپنے مقصد ميں کامياب نہيں ہوسکے اور ايم ايم اے کا اتحاد بدستور قائم ہے۔ يہ الگ بات ہے کہ ايم ايم اے نے سياسي طورپر کوئي بڑا معرقہ سرانجام نہیں ديا مگر فرقہ واريت کے خاتمے کا کريڈٹ اس کے اتحاد کو ہي جاتا ہے۔

علامہ صاحب پر اس سے پہلے جب اپريل ميں حملہ ہوا تھا تو انہوں نے اپنے دفاع کيلۓ حکومت کي مدد مانگي تھي اور وہ انہيں مل بھي گئي مگر کچھ عرصے کے بعد حکومت نے وہ سہولت واپس لے لي۔ اس کے بعد اب تک علامہ صاحب ہر پريس کانفرنس میں اپني حفاظت کي ضرورت پر زور ديتے رہے مگر حکوت نے ان کي درجواستوں کو سنجيدگي سے نہيں ليا۔ حکومت کا يہ موءقف ہے کہ ان کو ايک پوليس والا گاڑي ميں اور دو گھر کي حفاظت کيلۓ ديۓ گۓ تھے مگر ايم ايم اے کي قيادت نے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار ديا ہے۔

علامہ صاحب کي شہادت کي تحقيقات ايک اعليٰ کميشن سے کرائي جاۓ گي جو سالوں سال جاري رہيں گي اور پھر لوگ اس واقعے کو بھول جائيں گے۔ اس سے پہلے نشتر پارک کے سانحے میں بھي حکومت اب تک تحقيقات کر رہي ہے اور نتيجہ کب آتا ہے يہ اللہ ہي جانتا ہے۔

حکومت کو يہ چاہۓ کہ وہ خاص کر کراچي کے حالات کو اوليّت دے اور کراچي کو پھر سے امن کا گہوارہ اور غريب پرور شہر بنادے جہاں لوگ سارے پاکستان سے نوکري کي تلاش ميں آيا کرتے تھے اور پھر يہيں کے ہو کر رہ جاتے تھے۔

اللہ علامہ حسن ترابي کي خدمات کے صلے میں انہيں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے لواحقين کو صبرِ جميل عطا فرماۓ۔