آج کل ہیجڑوں کی جنس کو پاکستان میں پتہ نہیں کیوں پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ ہر اہم دن پر ان کی اخبارات میں فوٹو چھپنے لگی ہیں۔ ابھی خبریں نے اس فوٹو میں کھسروں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی خوشی مناتے ہوئے دکھایا ہے۔

ابھی دو ماہ قبل ہیجڑے کی شادی کے چرچے ہوئے، پھر کھسروں کی رجسٹریشن کرانے کا حکم جاری ہوا۔ لگتا ہے یہ جو ہوا چلی ہے اگلی نسل اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہheshe سکے گی اور کھسروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔

پرانے وقتوں میں جب کوئی بچہ نامرد پیدا ہوتا تھا تو اسے کھسرے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ یہ کھسرے دو چار کی ٹولی میں شادی بیاہ اور بچوں کی پیدائش پر حاضری دیا کرتے تھے۔ لیکن بچوں کی پیدائش پر دروازوں پر دستک دینا اور پھر والدین کے منع کرنے کے باوجود وہیں گانا بجانا شروع کر دینا ان کا سب سے بڑا ذریعہ آمدنی ہوتا تھا۔

مگر مشرف دور نے جہاں بہت سی روایات میں روشن خیالی کو پروموٹ کیا وہیں کھسروں میں بھی روشن خیالی عام ہو گئی۔ تب سے کھسروں کے پیشے سے “گے” افراد نے بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔ وہ جو زیر زمین تھے، کھسروں کے بھیس میں منظرعام پر آ گئے۔ اب یہ کھسرے بڑے بڑے شہروں میں سڑکوں پر بھیک بھی مانگتے ہیں اور جسم فروشی کا دھندہ بھی کرتے ہیں۔ بیگم شاہنواز کے ٹی وی پروگرام نے ان کھسروں کی چاندی کر دی اور یہ معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلنے لگے۔ اب اس تصویر سے دیکھ کر اندازہ لگائیے کتنے اصل کھسرے ہیں اور کتنے “گے” افراد ہیں۔ بعض اوقات تو ان کی خوبصورتی عورتوں کو بھی مات دینے لگتی ہے۔

پرانے وقتوں میں سرکس کا کاروبا بہت چمکا۔ یہ سرکس جہاں بھی لگتے اس کیساتھ موت کا کنواں کی طرح کے دوسرے چھوٹے چھوٹے مظاہرے کرنے کا بھی اہتمام ہوتا۔ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلیے ان لوگوں نے کئی فٹ اونچے سٹیج لگا رکھے ہوتے جن پر ہیجڑے سپیکر پر لگے گانوں پر ڈانس کیا کرتے تھے۔ اس وقت ایک انورا نام کے کھسرے کے بہت چرچے ہوئے تھے اور لوگ یہ بھی گمان کیا کرتے تھے کہ یہ مرد ہے مگر اپنی خوبصورتی کی وجہ سے عورت بنا ہوا ہے۔

اب تو کھسروں کا کاروبار ہیرا منڈی کا مقابلہ کرنے لگا ہے اور زمانے کی ترقی نے ان کے بناؤ سنگھار کرنے میں ایسی مہارت پیدا کر دی ہے کہ پہلی نظر میں یہ عورت ہی لگتے ہیں۔ ہمیں اس جنس سے سب سے بڑا خطرہ “گے” اور “لیزبین” کی ترویج کا ہے۔ ہمارا معاشرہ جو مغرب کے مقابلے میں دقیانوس خیال کیا جاتا ہے مگر اس معاملے میں یورپ سے سو قوم آگے ہے۔ یورپ میں اس جنس کو ایسے پروموٹ نہیں کیا جا رہا جس طرح ہمارے ہاں ان کی تشہیر ہو رہی ہے۔ یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس فتنے کو ابتدا میں ہی کنٹرول کر لے اور اگلی نسل کو اس کے خطرات سے بچائے۔ ان خطرات میں سب سے بڑا خطرہ ایڈ کی بیماری کا ہے جو پہلے ہی ملک میں پھیل رہی ہے۔