وزير اعليٰ ارباب رحيم لگتا ہے پير پگاڑا کے شاگرد رہے ہيں تبھي وہ ذومعني باتيں کرنے ميں ماہر ہيں۔ صدر نے ادھر ايم کيو ايم کو مزاکرات بر بلايا اور ادھر ارباب صاحب نے ايم کيو ايم کے ساتھ لڑائي کو شير اور گيدڑ کي لڑائي قرار دے ديا مگر يہ نہيں بتايا کہ شير کون ہے اور گيدڑ کون؟

اس دفعہ لگتا ہے دو ديوانوں ميں خوب ٹھنے گي اور آنے والا وقت ہي بتاۓ گا کہ کون گيدڑ کي طرح دم دبا کر بھاگتا ہے۔

ايم کيو ايم کا يہ وطيرہ رہا ہے کہ وہ پہلے حکومت کے ساتھ ملکر مزے لوٹتي ہے اور جب حکمرانوں کا آخري وقت آنے لگتا ہے تو کسي بہانے سے الگ ہوجاتي ہے۔ اس طرح وہ حکومت کا مزہ بھي چکھ ليتي ہے اور بعد ميں مظلوم بن کر دوبارہ ووٹ بھي حاصل کر ليتي ہے۔ وگرنہ اس دفعہ کراچي سٹي کا جو حال ايم کيو ايم کے دور ميں ہوا ہے اس سے تو يہي اميد تھي کہ ايم کيو ايم  پہلے سے کم ووٹ لے گي۔

ايک اور مزے کي بات يہ ہے کہ ايم کيو ايم نے بھي وہي مؤقف اپنايا ہے جو اس سے پہلے دوسرے باغي اپنا چکے ہيں يعني ايم کيو ايم کو صدر سے کوئي اختلاف نہيں اور ابھي بھي وہ صدر کي حمائت کرتي ہے۔ اسے اختلاف ہے تو صدر کي قائم کردہ حکومت کے نمائندوں کيساتھ ۔ ليکن اس دفعہ ايم کيو ايم نے صدر کے بلاۓ ہوۓ اجلاس ميں شرکت نہ کرکے شير کو للکارا ہے۔ اب ديکھنا يہ ہے کہ شير کيا کرتا ہے اور گيدڑ کون بنتا ہے۔

لڑائي جس مقام تک پہنچ چکي ہے اب يہاں سے جو بھي پسپا ہوا وہ گيدڑ کہلاۓ گا۔ اگر ايم کيو ايم نے اپنے استعفے واپس لے لۓ اور حکومت سے دوبارہ صلح کر لي تو پھر وہ گيدڑ بن جاۓ گي اور اگر حکومت نے گھٹنے ٹيک لۓ اور ايم کيو ايم کي ساري شرائط مان کر وزير اعليٰ کا بستر گول کرديا تو پھر حکومت گيدڑ ہوگي۔

اس وقت جبکہ حکومت کو حزبِ اختلاف کي طرف سے عدم اعتماد کي تحريک کا سامنا ہے اور اسے ايم کيو ايم کي مدد کي اشد ضرورت ہے۔  شائد يہي سوچ کر ايم کيو ايم نے حکومت کے ساتھ ٹکر لينے کا فيصلہ کيا ہے۔ مگر ايم کيو ايم کو يہ بات نہيں بھولني چاہۓ کہ ہماري حکومت جمہوري نہيں فوجي ہے اور وہ سندھ کي حکومت کا بستر گول کرکے گورنر راج بھي نافز کرسکتي ہے۔ دوسرے اگر فوجيوں کو خطرہ کچھ زيادہ محسوس ہوا تو وہ قومي حکومت کو بھي گھر بھيجنے ميں دير نہيں لگائيں گے۔ ابھي تک جو مارشل لا جمہوري حکومت کے پردے ميں نافز ہے وہ پردے سے باہرنکل آۓ گا اور عوام پہلے کي طرح يہ حادثہ بھي صبر شکر سے ہمضم کر ليں گے۔ نقصان ہوگا تو ايم کيو ايم کا۔ جس کے کارکن گرفتار ہونا شروع ہو جائيں گے اور پھر کراچي کا امن خراب ہوجاۓ گا۔

بہتري اسي ميں ہے کہ ايم کيو ايم اور حکومت دونوں اس نازک دور ميں اپنے اختلافات ختم کرليں اور حزبِ اختلاف کي تحريک کي آنے والي لہرکے مقابلے کي تياري پکڑيں۔ ايم کيو ايم کيلۓ بھي يہي بہتر ہے کہ وہ جنگل کے شير کے ساتھ ٹکر نہ لے۔ اسي ميں اس کي بھلائي ہے۔ ورنہ الطاف بھائي کا کيا جاۓ گا وہ تو انگلينڈ کي ٹھنڈي ہواؤں کے مزے ليتے رہيں گے مارے تو بيچارے کارکن جائيں گے جن کو جيل کے مچھر کاٹ کاٹ کر لہو لہان کر ديں گے۔