بابایے اسلامی ایٹم بم آجکل گھر میں نظربند ہیں اور حکومت کے کیے کا کفّارہ بڑے صبروتحمل سے ادا کر رہے ہیں۔ پچھلی حکومتوں نےفوج کی نگرانی میںجو سودے کیے اس پر پردہ ڈالنے کے لیے خان صاحب کو قربانی کا بکرہ بنا دیا گیا۔
ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایٹمی ٹیکمالوجی سمگل کی اور سمگلنگ کا نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ اس گھنّاونے کاروبار سے انہوں نے بے پنا دولت اکٹھی کی۔
ابھی تک ان پر کویی باقایدہ ایف آیی ٓر درج نہیں ہویی اور نہ ہی ان کی غیرقانونی دولت کا پتہ چلایا گیا ہے۔
جب ان کو ٹی وی پر اقرارجرم کے لیے پیش کیا گیا توانہوں اپنے سارے بیان کا اختتام اس جملے پر کیاکہ جو کچھ میں نے کیا ملکی مفاد میں کیا
اگر ہم موجودہ حکومتی سیٹ اپ دیکھیں تو یہ ممکن ہی نہیں لگتا کہ اس طرح کا حسّاس عہدے پر کام کرنے والاشخص اتنا بڑا نیت ورک اتنے لمبے عرصے تک چلایے اور حکومتی ایجینسیوںکو خبر تک نہ ہو۔ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ جو کچھ ڈاکڑ صاحب نے کیا حکومتی اداروں یا عھدے داروں کو اعتماد میں لے کر کیا ہوگا۔ مگر انہوں نے ملک کے مفاد میں قربانی کا بکرہ بننا گوارہ کر لیا۔
ان کے دور میں انڈیا نے بھی اہنے بابایے ایٹم بم کی سربراہی میں ایٹمی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کی اور اس کے صلے میں اسے ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فایز کر دیا اور ایک ہم ہیں کہ اپنے محسن کو گھر میں ٹڑپ ٹڑپ کر مرنے کیلیے چھوڑ دیا۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتایے گا کہ اصل مجرم کون تھا۔
خان صاحب نےملک کو وہ کچھ دیا جس کے لیے دنیا کی اکثریّت ہاتھ دھو کر پیچھے پڑی ہویی ہے اور پھر بھی حاصل نہیںکر پا رہی۔ ہمارے عوام نے پہلےاچھے وقتوںمیں تو خان صاحب کی خوب پزیرایی کی اوراور بڑی عزت دی۔ ایک دفعہ ایک پبلک میٹنگ میں ان کو اس وقت کے صدر سے بھی زیادہ جوش و خروش سے خوش آمدید کہا۔ مگر اب جب خان صاحب پر مشکل وقت آ پڑا ہے تو قوم نے انہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔ اب تو وہ وقت آگیا ہے کہ ان کے لیے احتجاج کرنے والا ہی کویی نہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری قوم اور اس کے لیڈر کتنے خودغرض ہیں۔
خان صاحب کے پاس اس کے سوا اور کویی چارہ نہیں کہ وہ اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں اور اچھے وقت کا انتظار کریںکہ جب کویی خدا کا بندہ ان کو آزاد کرے گا۔
اسلام میں یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ اپنے محسن کو مسلمانوں نے بھلا دیا ہو۔ اس سے پہلے ہم خالدبن ولید اور محمد بن قاسم کے ساتھ بہی یہی سلوک کر چکے ہیں۔