اس وقت ملک میں قیادت کا بحران ہے۔

پیپلز پارٹی کی کرپشن زبان زدِعام ہے اور اس پر صدر زرداری کی کارکردگی انتہائی مایوس رہی ہے۔

مسلم لیگ ن بھی ذاتی مفادات کی وجہ سے خاموشی اختیار چکی ہے۔

مذہبی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کے ٹوٹنے کے بعد بکھر چکی ہیں۔ ویسے بھی متحدہ مجلس عمل نے صوبہ سرحد میں اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں کوئی خاص متاثر نہیں کیا۔

ایم کیو ایم ابھی تک کراچی حیدرآباد تک محدود ہے اور کوئی خاص نظریہ نہیں رکھتی۔

شیخ رشید خود جنرل مشرف کو سپورٹ کر کے اپنا سیاسی قد کم کر چکے ہیں۔ ویسے بھی وہ اکیلے اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کوئی انقلاب برپا کر سکیں۔

عمران خان باتوں کی حد تک بہت متاثر کرتے ہیں مگر وہ ابھی تک تحریک انصاف کو مرکزی سیاسی پارٹی نہیں بنا سکے۔

اے این پی نظریاتی جماعت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کی جھولی میں بیٹھ کر سرحد میں خاموش حکومت کر رہی ہے اور ابھی کوئی انقلابی اقدامات نہیں اٹھا سکی۔

ہم پہلے بھی طلبا تنظیموں پر پابندی کو موجودہ قیادت کے بحران کا ذمہ قرار دے چکے ہیں مگر اکثریت نے ہماری اس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور طلبا تنظیموں کو تعلیمی اداروں کیلیے نقصان دہ قرار دیا۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ متوسط طبقے کے بڑے بڑے لیڈر طلبا سیاست سے ہی پروان چڑھے۔ جاوید ہاشمی، جہانگیر بدر، شیخ رشید، احسن اقبال، امیرالععظیم، حنیف عباسی، آفتاب بلوچ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

جب سے طلبا تنظیموں پر پابندی عائد ہے موروثی لیڈرشپ نے ملکی سیاست اور حکومت پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہی ہمارے آقا چاہتے ہیں کہ مرکزی سیاست کی نمائندگی کبھی متوسط طبقے کے پاس نہ جائے کیونکہ متوسط طبقے کی قیادت کو موروثی قیادت کی نسبت خریدنا ایسے ہی مشکل ہوتا ہے جس طرح فوجی حکومت کی نسبت سیاسی حکومت کو۔ آج اگر فوجی حکومت ہوتی تو اس طرح کیری لوگر بل پر شور نہ مچا ہوتا۔

اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ متوسط طبقے کی نمائندگی کیلیے سیاسی قیادت کس طرح پیدا کی جائے۔ سیاسی پارٹیاں سوائے جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے خود اپنے اندر جمہوریت کو اپنانے سے گریز کر رہی ہيں  تو پھر ان کے ہاں سے عام آدمی کا لیڈر بن کر اوپر آنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ وہ دن پاکستانی سیاست میں تبدیلی لائے گا جب نیلسن منڈیلا کی طرح ہماری سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ بھی خود بخود سیاست سے ریٹائر ہونے لگے گی۔

اب آپ بتائیں کہ طلبا تنظیموں پر پابندی ہٹانے کے علاوہ وہ کونسا طریقہ ہے جس سے موروثی قیادت کو متوسط طبقے کی قیادت سے بدلا جا سکے؟