پہلے چینی اور بجلی کا بحران ہی کیا کم تھا کہ اب گیس کی راشننگ کا مژدہ سنا دیا گیا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والی صنعتوں کو ہفتے میں دو دن بند کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے اور ساتھ پہیہ جام کرنے کیلیے سی این جی گیس سٹیشنوں کو دو دن بند رکھنے کا بھی حکم جاری کیا گیا ہے۔ اب سوچنے والی بات ہے جب صنعتیں ہفتے میں دو دن بند رہیں گی اور لوگ دو دن سی این جی کے بغیر گاڑیوں کو گھروں میں پارک کر دیں گے تو وہ کاروبار خاک کریں گے۔ اس پر طرہ یہ کہ حکومت نے سرکاری محکموں کو ہفتے میں دو دن چھٹی دینے کی بھی تیاری کر لی ہے۔

اس طرح ہمارے دشمن ہمیں پتھر کے دور میں تو بعد میں بھیجیں گے ہم خود ہی پتھر کے دور کی طرف سرکنے لگے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلیے دو دن کارخانے بند کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ ہفتے میں دو دن جب چھٹی ہو گی اور گاڑیوں میں گیس بھی نہیں ہو گی تو پھر لوگ گھروں میں بیٹھے رہا کریں گے۔ یعنی نہ دکانداروں کا کاروبار ہو گا اور نہ تفریح گاہوں میں لوگ جا پائیں گے۔

حزب اختلاف کو چاہیے کہ وہ اسمبلی میں گیس کی راشننگ کی حکومت سے تفصیل طلب کرے اور حکومت کو راشننگ سے بچنے کیلیے اہم مشورے دے۔ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ صارفین کو گیس کی راشننگ میں شامل کیا جائے مگر کارخانے بند نہ کیے جائیں۔