اب لگتا ہے جتنا لکھنا تھا لکھ دیا اور جو بھی لکھا وہ حکومت اور عوام کو پہلے ہی معلوم تھا۔ مگر اس کے باوجود کوشش کی جو ابھی تک لاحاصل رہی۔ آج ہم نے لکھنے کا سوچا اور اخبارات کو کھنگالا تو کئی مسائل پر لکھنے سے پہلے معلوم ہوا ہم پہلے ہی ان پر لکھ چکے ہیں۔ آج کے اخبارات میں جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں سے کونسا ایسا ہے جسے حکومت کو سمجھنے کیلیے ہم جیسے ایک عام سے آدمی کی مدد کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر

نوائے وقت کی اس خبر آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ پوری کرنے کیلیے حکومت نے بجلی کے نرخ کئی بار خاموشی سے بڑھائے۔ اب اگر منصف ہی مجرم ہو تو پھر انصاف کہاں ہو گا۔

ایکسپریس کے مطابق صدر صاحب کہتے ہیں کہ وزیرستان آپریشن ناگزیر تھا مگر یہ مسئلے کا پائیدار حل نہیں۔ لیں جی حکومت جب جانتی ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتی تو پھر اسے مزید سمجھانے کی ضرورت ہی نہیں۔ مگر جانتے بوجھتے ہوئے مسئلے کے پائیدار حل کی کوشش نہ کرنا حکومت کی نااہلی ہی ہوئی ناں۔

چینی کی قلت بدستور جاری ہے۔ حکومت اگر چاہے تو اس قلت کا سدِباب کر سکتی ہے۔ جس چیز کی ڈیمانڈ ہے وہ درآمد کر کے مارکیٹ میں ڈال دو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر اس طرح اسمبلی ارکان کی شوگر ملیں اب جو بلیک میں چینی بیچ کر منافع کما رہی ہیں وہ ختم ہو جائے گا۔ چینی کی قلت اندرونِ خانہ تو شوگر ملوں کیلیے نعمت ثابت ہو رہی ہے۔ اب قانون بنانے والے ہی جب قانون کی خلاف ورزی شروع کر دیں تو پھر عوام ہی خوار ہوں گے۔

لیکن جب عوام جانتے بوجھتے ہوئے ان مسائل کو جھیلنے کو تیار ہیں تو پھر انہیں احتجاج پر اکسانا بیکار ہے۔

کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں

ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتائیں