بینظیر کو قتل ہوئے دو سال ہو چکے ہیں مگر ان کے قاتل ابھی تک سزا سے بچے ہوئے ہیں۔ قومی پولیس کی تفتیش کے دوران جو نوعمر ملزم پکڑے گئے ان پر ابھی تک جرم ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اقوام متحدہ کی ٹیم ابھی تک اپنی تحقیقات مکمل نہیں کر سکی۔

بینظیر کی اولاد ان کی قبر پر پھولوں کے ڈھیر میں قاتلوں کے نشان چھپا رہی ہے۔ وہ اس قبر سے اپنا سیاسی مسقتبل بنائے گی چاہے اسکیلیے انہیں اپنی ماں کے قاتلوں کو بھولنا ہی کیوں نہ پڑے۔  بینظیر کے وارث کبھی بھی بینظیر کے قاتلوں تک نہیں پہنچ پائیں گے کیونکہ وہ بینظیر کے قاتل ڈھونڈنے کی بجائے  پھولوں کی پتیوں سے بینظیر کی روح کو ذخمی کر رہے ہیں۔ بیںظیر ان سے کہہ رہی ہے ظالمو میری قبر پر پھول تب چڑھاتے جب میرے قاتل پکڑ لیتے۔ تم سب خود غرض ہو، تمہیں میری پرواہ نہیں ہے، تمہیں اپنے اپنے مستقبل کی پرواہ ہے، تمہیں کرسی پیاری ہے  اور کچھ نہیں۔

جس طرح بینظیر کے بھائی کا قتل اس کے دور میں ہونے کے باوجود قاتل سزا سے بچے ہوئے ہیں اسی طرح موجودہ پی پی پی کی حکومت ہونے کے باوجود بینظیر کے قاتلوں پر جرم ثابت نہیں ہو سکا۔ جس طرح بینظیر اپنے باپ کے قاتلوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکی اسی طرح بینظیر کا رنڈوا خاوند اپنی بیوی کے قاتلوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکا۔ نہ بینظیر کے باپ کا کیس دوبارہ کھلے گا اور نہ بینظیر کا کیس حل ہو گا۔ بھٹو کا قتل بھی سیاسی تھا اور بینظیر کا قتل بھی سیاسی ہے۔ بھٹو کے قتل پر بینظیر نے سیاست کی اور بینظیر کے قتل پر اس کا رنڈوا خاوند سیاست کر رہا ہے۔ پتہ نہیں یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔

بینظیر کے قتل کا سب سے زیادہ فائدہ آصف زرداری کو ہوا اور سب سے زیادہ نقصان ناہید نیازی، صفدر عباسی جیسے بینظیر کے ساتھیوں کو ہوا۔ یہ ایک ایسا معمہ ہے جو بینظیر کے خاندان کے باقی مقتولوں کی موت کی طرح راز ہی رہے گا۔ کیونکہ جب مدعی ہی سست ہوں تو مقدمہ کئی سالوں تک لٹکا ہی رہے گا۔