جمہوريت کا مشن

جمہوريت کے مشن کے باب سترہ ميں پرويز صاحب نے سب سے پہلے پاکستان کي سياسي تاريخ کا مختصراً جائزہ ليا ہے۔ پاکستان کي سياسي تاريخ پر بات کرتے ہوۓ انہوں نے اپني طرف سے کوئي خاص اضافہ نہيں کيا بلکہ وہي لکھا ہے جو ہر پاکستاني پہلے ہي جانتا ہے۔ پرويز صاحب  نےسياستدانوں کي جہاں کچھ خبر لي ہے وہاں اپنے جنرل حليفوں کو کچھ نہيں کہا۔

پاکستان کي تاريخ کا جائزہ لينے سے پہلے پرويز صاحب لفظ جمہوريت کے ظہور کي بات کرتے ہيں۔ کہتے ہيں کہ جمہوريت کا لفظ يوناني ہے اور اس کا مطلب ہے عوام کي حکومت۔ ليکن ساتھ ہي کہتے ہيں کہ پاکستان ميں کبھي بھي عوام کي حکومت نہيں رہي بلکہ ہميشہ بڑے بڑے خاندان مثلاً فيوڈل لارڈز، قبائلي جنگ جو اور ايک ہي قسم کے سياستدانوں نے حکومت پر قبضہ کۓ رکھا ہے۔ ليکن پرويز صاحب يہ بات بھول رہے ہيں کہ ان کي حکومت بھي انہي لوگوں پر مشتمل ہے۔ يہ کيسي ڈھٹائي کي بات ہے کہ جن لوگوں کي برائي کي جارہي ہے وہي لوگ آپ کي حکومت ميں شامل ہيں۔

اس باب میں کہيں بھي ملک ميں بار بار مارشل لاء کو جمہوريت کي نشو نما کيلۓ رکاوٹ ثابت نہيں کيا بلکہ ہر مارشل لاء کا جائزہ سرسري طور پر ليا ہے۔ حالانکہ ہم سب جانتےہيں کہ جنرل ايوب اور يحيٰ کے مارشل لاؤں نے ملک کو دو ٹکڑے کيا اور جنرل ضيا کے مارشل لاء نے کلاشنکوف کلچر اور فرقہ بندي کو ہوا دي۔

جمہوريت کي اس تمہيد کا مطلب صرف يہ ثابت کرنا ہے کہ پاکستان کي تاريخ کے مطابق يہاں مکمل جمہوريت فائدے مند نہيں ہے اور اسطرح پرويز صاحب کي اپني فوجي کم جمہوريت پاکستان کيلۓ ضروري ہے۔

 اس باب کے آخر ميں نواز شريف کي مخالفت میں ان کے شريعت بل کو پاکستان ميں طابنائزيشن قرار ديا ہے۔ ساتھ ہي نواز شريف صاحب کو کارگل کي جنگ ہارنے کا دوبارہ ذمہ دار قرار ديا ہے۔