کل ہم نے شاہ رخ خان کی فلم مائی نیم از خان دیکھی اور ہماری توقع سے ہٹ کر بنائی گئی یہ آرٹ فلم مسلم کاز کی بہترین ترجمانی کرتی ںظر آئی۔ اس فلم میں ہندومسلم کی تفریق اور مسلمانوں کو امریکہ میں پیش آنے والے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو انتہاپسند تنظیمیں شاہ رخ خان کے پاکستانی کھلاڑیوں کی حمایت میں بیان کو بہانہ بنا کر اس فلم کی مخالفت کر رہی ہیں۔ یہ ایک اوسط درجے کی فلم ہے جس کو سلم ڈاگ ملینئر کی طرح ایک کہانی بیان کرنے کے انداز میں فلمایا گیا ہے۔

ہماری توقع سے ہٹ کر فلم سے مراد فل ایک بیمار آدمی کی کہانی پر مبنی ہے۔ فلم کی ریلیز سے پہلے ٹریلرز سے یہ لگ رہا تھا شاید ہیرو اور ہروئن وقفے تک ہنسی خوشی نارمل زندگی گزار رہے ہوں گے جس میں مزاح کی چاشنی ڈال کر فلم کو دلچسپ بنایا گیا ہو گا۔ وقفے کے بعد ہیرو پر امریکی ظلم دکھایا جائے گا جس کی وجہ سے ہیرو بیماری کا شکار ہو جائے گا اور اس طرح باقی فلم اس کی جدوجہد پر آگے بڑھے گی۔

سہاگ رات کے سین میں  ہم بستری پر بولے گئے فحش مکالموں کو چھوڑ کر یہ فلم فیملی کیساتھ بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ پتہ نہیں فلم ساز نےان مکالموں سے کونسا مقصد حاصل کیا ہے۔ چلیں یہ شکر ہے بات مکالموں تک محدود رہی اور انہیں سین میں منتقل نہیں کیا گیا۔

مسلمانوں کو امریکہ میں پیش  آنے والے مسائل کو بہترین انداز میں پیش کر کے فلم ساز نے کمال کر دیا ہے۔ اس فلم کی ایک اور خوبی غیرامریکیوں کو امریکہ کی سیر کرانا ہے۔ کچھ عرصے سے مسالہ فلموں سے ہٹ کر جو فلمیں  بنائی جا رہی ہیں یہ فلم اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اگر یہ فلم کامیاب ہو گئی تو ہم سمجھیں گے کہ اب لوگ باشعور ہو چکے ہیں اور وہ آئٹم ڈانس اور مزاح کیلیے فلم دیکھنے نہیں جاتے بلکہ بہترین موضوع کی بھی پذیرائی کرتے ہیں۔

اس فلم میں شاہ رخ اور کاجل کے کلوزاپ مناظر نے بہت بور کیا۔ ہو سکتا ہے چھوٹی سکرین یعنی ٹی وی پر یہ لوگ اچھے لگیں۔ اگر اس فلم میں ان دونوں کی بجائے کسی نوجوان جوڑے کو متعارف کرایا جاتا تو شاید پرفارمنس مزید بہتر ہو سکتی تھی۔ شاہ رخ کی ایکٹنگ مصنوعی مصنوعی سی لگ رہی تھی۔ فلم چونکہ امریکہ میں رہنے والے ہندوستانی پر بنی ہے اس لیے اس میں بہت سارے انگلش کردار بھی نظر آتے ہیں جو فلم میں انگریزی کی ملاوٹ کو بڑھا دیتے ہیں۔ فلم میں ہندی مکالموں کا انگریزی میں کیپشن تو نظر آتا ہے مگر انگریزی مکالموں کا ہندی میں کیپشن کم از کم امریکہ میں نہیں دکھایا گیا۔ ہو سکتا ہے اس ترجمے کا اہتمام انڈیا اور پاکستان میں کیا گیا ہو۔

فلم اتنی بھی بری نہیں ہے کہ اسے بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ ایک بار تو فلم دیکھی ہی جا سکتی ہے۔ مسلم کاز کے اضافی نمبروں کیساتھ ہم اس فلم کو دس میں سے سات نمبر دیں گے۔