پاکستان دہشتگردی کی لپیٹ میں

امریکہ ہی صرف 911 کا شکار نہیں تھا بلکہ پاکستان پر اس کا اثر مختلف انداز سے ہوا لیکن اتنا ہی سنگین تھا اور ہم اس کے نتائج اب تک بھگت رہے ہیں۔ کسی اور ملک کو اتنی مختلف سمتوں سے، اتنے خطرات کا سامنا نہیں کرپڑا۔ ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا اور دہشت گردی کی مخالفت ميں تمام مہزب دنیا کیساتھ ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں داخلی اور خارجی خطرات کا سامنا ہے۔ افغانستان ہمارا پڑوسی ہے اور ہماری اس کیساتھ غیرمحفوظ سرحد ہی مشترک نہیں بلکہ ہمارے اس کیساتھ دینی، نسلی اور قبائلی اشتراک کیساتھ ساتھ خاندانی رشتے بھی ہیں۔ بنیادی طور پر ہمارے بہت سارے قبائل افغانستان سے آۓ اور انہوں نے بارڈر کے دونوں طرف آپس میں شادیاں بھی کی ہوئی ہیں۔ افغنانستان کی جنگ کے دوران بہت سارے افغانی پناہ گزین پاکستان میں داخل ہوگۓ۔ پچیس سال بعد بھی پاکستان میں چار ملین افغان پناہگزین پاکستان میں رہ رہے ہیں جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کی تعداد ہے۔  روس کے افغانستان سے جانے اور امریکہ کو اسے اپنے حال پر چھوڑنے کے بعد ہمیں ان کی بنیادی ضروریات کا بوچھ  اٹھانا پڑا۔

[طالبان کے دور میں امن قائم ہونے کے بعد مہاجرین کے واپس جانے کا جو عمل شروع ہوا تھا وہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کیساتھ ہی ختم ہوگیا۔ اب افغانستان میں ان لوگوں کی حکومت ہے جن کے مہاجرین پاکستان ميں رہ رہے ہیں مگر ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ اب ان لاکھوں افغان مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھیج سکیں۔ ان مہاجرین نے اپنے پر اس قدر پھیلا لۓ ہیں کہ اب کپڑے کا تقریباً سارا کاروبار انہوں نے سنبھال رکھا ہے۔ سیکیورٹی کیلۓ بھی زیادہ تر افغانی بھرتی کۓ جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے بڑے بڑے گھر ملک کے بڑے بڑے شہروں میں بنا رکھے ہیں۔ بہت سوں نے تو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک بنوا لۓ ہیں۔ سب سے نقصان والی بات یہ ہے کہ ان مہاجرین کی اکثریت ان پڑہ ہے۔ امریکہ کو دیکھیں وہاں غیرقانونی تارکینِ وطن کو باہر نکالنے کی باتیں اس لۓ ہورہی ہیں کہ امریکی لیڈروں کے بقول انہوں نے مقامی امریکیوں کے روزگار کا حق مار رکھا ہے۔ وہ ان کی میڈیکل کی سہولتيں استعمال کررہے ہیں اور جرائم میں بھی ملوث ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ کبھی سوچا ہی نہیں کہ یہ مہاجرین ہماری معشیت پر کتنا بڑا بوجھ ہیں۔ ایک طرف تو ہم بہاریوں کو بنگلہ دیش سے اسلۓ نہیں لارہے کہ انہیں بسائیں گے کہاں اور دوسری افغانیوں کو سینکڑوں میل کے علاقے میں بسا رکھا ہے]۔

اس جنگ کا ایک اور محاذ پاکستانی عوام کی اپنی راۓ تھی۔ گوکہ بہت سارے پاکستانیوں نے 911  مزمت کی مگر عوام کی اکثریت نے امریکہ کی جوابی کاروائی کو بھی اچھا نہیں سمجھا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک مزہبی رہنما اور دوسرے پاکستانی عوام کا امریکہ کا پاکستان کو روس کی شکست کے بعد اکیلا چھوڑنے پر غصہ۔

 اکیس سال پہلے  ہمارے لۓ یہ قدرتی امر تھا کہ ہم روس کیخلاف جہاد میں شامل ہوجائیں تاکہ ہم اس کی گرم پانیوں تک رسائی کو روک سکیں۔ 2001 میں یہ بھی ہمارے لۓ قدرتی امر تھا کہ ہم دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شامل ہوجائیں کیونکہ پاکستان  فرقہ وارانہ اور بیرونی دہشت گردی کا شکار رہا تھا اور ہماری یہ بھی خواہش نہیں تھی کہ پاکستان میں طالبان کی طرز کا دور لوٹ آۓ۔  دونوں حالات میں یہ ہمارے قومی مفاد میں تھا کہ جس طرح ہم روس کی موجودگی اپنے پڑوس میں برداشت نہيں کرسکتے تھے اسی طرح ہم اپنی گھریلو دہشت گردی اور انتہا پسندی بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے جس کی وجہ سے انتہا پسند حکومت پر قبضہ کرکے پاکستان میں دقیانوسی اور متشدد اسلام نافز کردیتے جو کہ اسلام کی غلط تشریح تھی۔

[دراصل نہ ہم اپنی مرضی سے روس کیخلاف جہاد میں شریک ہوۓ اور نہ اپنی مرضی سے دہشت گردی کی جنگ میں۔ ہم تو وہ سوکھے پتے تھے جن کو جدھر ہوا نے چاہا اڑا دیا۔ اب ہم اس کی سو وجوہات بیان کریں ان کا کوئی فائدہ نہیں]۔

جب ہم نے اپنی ہمت سے  دہشت گردی پر قابو پانا شروع کیا تو  بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں نے پرویز صاحب کے سر کی قیمت مقرر کردی اور بیرونی دہشتگردی کا پاکستان میں آغاز کردیا۔

[ اس کے بعد مشرف صاحب پاکستان میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات بیان کرتے ہیں۔ ان واقعات میں وہ سب سے زیادہ اہمیت ڈینیل پرل کے اغوا اور شوکت عزیز پر قاتلانہ حملے کو دیتے ہیں۔ یہاںپر ہم ان واقعات کا حرف بہ حرف ترجمہ کرنے کی بجاۓ صرف خلاصہ پیش کرتے ہیں]۔

جنوری 23 اور 24، 2002 کو بین الاقوامی میڈیا کو ای میلز ملیں جن میں وال سٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیل پرل کے اغوا کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اسے اغوا کرنے والوں نے عجیب سے مطالبات پیش کۓ تھے۔

1۔  گوئنٹاناموبے سے پاکستانی قیدیوں کی رہائی اور واپسی

2۔ امریکی افواج کی پاکستان سے فوری واپسی

3۔  پاکستان کو ایف سولہ کے جہازوں کی ڈیلوری جن کی قیمت پاکستان پہلے ہی ادا کرچکا تھا۔

4۔ پاکستان میںسابق افغان سفارتکار ملا حفیظ کی رہائی

اس ای میل میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ امریکی پاکستانی زمین پر کبھی بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں پائیں گے اور اگر ان کے مطالبات نہ مانے گۓ تو اس طرح کے واقعات بار بار پیش آتے رہیں گے۔

قصہ مختصر یہ کہ اس ای میل کی مدد سے ڈینیل پرل کے قاتل پکڑے گۓ مگر تب تک ڈینیل پرل کو قتل کیا جاچکا تھا۔   عمر شیخ اس اغوا کرنے والوں کا سرغنہ پایا گیا۔ یہ وہی عمر شیخ ہے جو برطانیہ کا شہری ہے اور وہ انڈیا مولانا اظہر کو رہا کروانے گیا مگر پکڑا گیا۔ وہ انڈيا میں تین برطانوی اور امریکن کو اغوا کے جرم میں پانچ سال سے قید تھا مگر جب انڈین ائرلائن کا طیارہ قندھار، افغانستان ميں اغوا کیا گیا تو اس کی ڈيل میں ان دونوں کو چھوڑ دیا گیا۔ عمر شیخ نے کچھ کراۓ کے لوگوں کیساتھ ملکر ڈینیل پرل کو اغوا کیا جو بعد میں عمر شیخ سے باغی ہوگۓ اور انہوں نے اس کی مخالفت کے باوجود ڈینیل پرل کر قتل کرکے اس کی وڈیو ریلیز کردی۔

پرویز صاحب کہتے ہیں کہ انہیں بعد میں معلوم ہوا کہ عمر شیخ نے اپنےآپ کو پولیس کے حوالے کیوں کیا۔ ایک تو پولیس نے اس کے رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا تھا اور دوسرے اسے یقین تھا کہ وہ اس مقسے سے بری ہوجاۓ گا مگر دہشت گردی کی عدالت نےاسے اس کے ساتھیوں کیساتھ سزاۓ موت سنا دی۔ قتل کے کچھ ماہ بعد لشکرِ جھنگوی کے ایک کارکن نے تفتیش کے دوران ڈینیل پرل کے قتل میں ملوث ہونے کا اقرار کرلیا اور اس کی نشاندہی پر پرل کی لاش برآمد کرلی گئ۔ مگر وہ پرل کے قاتل کے بارے ميں صرف اتنا جانتا تھا کہ وہ عربی لگتا تھا۔تفتیش کے بعد یہ پتہ چلا کہ پرل کو قتل خالد شیخ محمد نے کیا تھا جس کا اس نے اقرار کرلیا۔ [ سزاۓ موت پانے والے ابھی تک اپیلوں کے چکروں ميں پڑے ہوۓ ہیں اور اپنی پھانسی کا انتظار کررہے ہیں]۔

اس کے بعد پرویز صاحب اسلام آباد میں ایک چرچ پر گرینیڈز کے حملے کی دہشتگردی کی تفصیل بیان کرتے ہیں جو مارچ 17، 2002 میں ہوا۔ اس چرچ میں بیرونی ممالک کے باشندے عبادت کرتے تھے۔ اس حملے میں چار افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہوۓ۔  حکومت نے کئ لوگوں کر گرفتار کیا مگر اصل قاتل اسلۓ نہ پکڑے گۓ کہ اصل مجرم اور دہشتگرد نے اپنے آپ کو بم سے اڑا لیا تھا۔

اس کے پانچ ماہ بعد مری میں ایک مشنری سکول پر حملہ کیا گیا۔ گارڈ نے حملہ آوروں کو رکنے کی کوشش کی مگر انہوں نے اسے قتل کردیا۔ فائرنگ کی آواز سے سکول کی انتظامیہ چوکنی ہوگئ اور انہوں نے سکول کے دروازے کھڑکیاں بند کردیۓ۔ دہشتگرد اس کے بعد جنگل میں روپوش ہوگۓ۔

پولیس سٹیشن اور آرمی کا کمیپ اس سکول کے پاس ہی تھا۔ آرمی نے شکاری کتوں کی مدد سے دہشت گردوں کو جنگل میں ڈھونڈنا شروع کردیا ۔ ایک دیہاتی جو سابقہ جونیئر آرمی آفیسر تھا نے تینوں دہشتگردوں کو ایک مقام پر گھیرلیا مگر انہوں نے اپنے آپ کو بموں سے اڑا لیا۔ دو کی لاشیں دریا میں گرگئیں جبکہ صرف ایک لاش ملی مگر اس دہشتگردی کے اصل مجرمان کا پتہ نہ چل سکا۔

اس کے چار دن بعد دہشتگردوں نے ٹیکسلہ کے کرسچین ہسپتال کے ایک چرچ پر حملہ کردیا۔ لوگ عبادت کرکے باہر آرہے تھے کہ تین آدمی گراونڈ میں داخل ہوۓ اور انہوں نے لوگوں پر گرینیڈ پھینکے۔ ایک آدمی اور چار عورتیں ہلاک ہوئیں اور بیس زخمی ہوۓ۔ دہشتگرد بھاگ گۓ مگر بعد میں پولیس نے ایک دہشتگرد کی لاش گیٹ کےپاس دیکھی جو اپنے گرینیڈ سے ہلاک ہوا تھا۔ لاش کی جیب سے اس کے شناختی کارڈ کی کاپی ملی جس کی مدد سے اس کے دوسرے دو ساتھی بھی گرفتار کرلۓ گۓ۔ پہلی دفعہ دہشتگردوں کو گرفتار کرنے کا موقع ملا۔ انہی کی مدد سے ان حملوں کے سرغنہ سیف الرحمٰن سیفی کا پتہ چلا جس نے انہیں گرینیڈ اور دوسرے ہتھیار فراہم کۓ تھے۔

سیفی نے دورانِ تفتیش بتایا کہ ان حملوں کی وجہ افغانستان پر امریکہ کا حملہ اور مسلمانوں پر افغانستان، کشمیر اور فلسطین پر ظلم کا بدلہ تھا۔ سیفی کو اس کا پتہ نہیں تھا کہ ان حملوں کے پیچھے کسی اور کے محرکات تھے۔ دراصل سیفی نے افغانستان میں مولانا اظہر کے کیمپ سے ٹریننگ لی تھی۔ جب اس جعلی ملا کو ہم نے گرفتار کیا تو اسے یہ ڈر تھا کہ ہم کہیں اسے دوبارہ انڈیا کے حوالے نہ کردیں۔ اس لۓ اس نے حکومت کو اپنی طاقت دکھانے کیلۓ حملوں کا منصوبہ بنایا۔ بعد میں جب اسے یقین ہوگیا کہ ہم اسے انڈیا کے حوالے نہیں کریں گے تو اس نے حملے نہ کرنے کا حکم دیا مگر  نزیر جوکہ استاد سے بھی زیادہ بدلے کی آگ میں جل رہا تھا نے حملے روکنے سے انکار کردیا۔ اس اوسامہ نزیر کو بعد میں فیصل آباد سے گرفتار کرلیا گیا۔

2002 میں ایک اور حملہ پاکستان نیوی کی بس پر ہوا جو شیرٹن ہوٹل سے باہر نکل رہی تھی۔  خودکش حملہ آور نے اپنی کار ان کی بس سے ٹکرا دی۔ اس بس میں فرانسیسی انجینئر سفر کررہے تھے جن ميں سے گیارہ ہلاک ہوگۓ۔ دو پاکستانی بھی اس حملے میں شہید ہوۓ۔ زخمیوں کی تعداد چوبیس تھی۔ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹيم اس ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی اور تھوڑی ہی دیر میں میچ کھیلنے کیلۓ روانہ ہونے والی تھی۔ کھلاڑیوں پر اس دہشتگردی اتنا برا اثر ہوا کہ وہ دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس چلے گۓ۔ جو کار حملے میں استعمال ہوئی وہ چند روز قبل ایک شو روم سے خریدی گئ تھی۔ سیلزمین کی مدد سے دہشتگرد کا خاکہ بنایا گیا مگر مجرم نہ پکڑے جاسکے۔ اس واردات میں بریک تھرو تب ملا جب پولیس کی حراست میں ایک دہشتگرد نے بتایا کہ شارب نامی لڑکا یہ حملہ کرنا چاہتا تھا۔ شارب نے دورانِ تفتیش اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا مگر اس نے بتایا کہ وہ اصل مجرموں کو جانتا ہے اور وہ تھے حرکت المجاہدین کے آصف ظہیر اور سہیل اختر۔ وہ دونوں گرفتار ہوۓ اور بعد میں انہیں موت کی سزا سنا دی گئ۔

اس سے پہلے کہ پرویز صاحب اگلے دو واقعات کا ذکر کریں وہ لکھتے ہیں۔ “مجھے ان تمام وحشیانہ حرکتوں پر ان لوگوں پر سخت غم و غصہ تھا جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے اور عیسائیوں اور غیر ملکیوں پر بلا وجہ حملے کرتے تھے اور طیش تھا کہ اپنی خبیث حرکتوں کی وجہ سے یہ دہشت گرد ہمارے مزہب کو بدنام کررہے ہیں، جو سکھاتا ہے کہ عیسائی بھی اہلِ کتاب ہیں اور یہ کہ خدا کی راہ میں جنگ کرتے ہوۓ ہمیں بصیرت کا مظاہرہ کرنا چاہۓ اور جنہوں نے ہمیں کوئی ضرر نہ پہنچائی ہو، ان سے جنگ نہ کریں اور یہ کہ قتل اور خودکشی گناِ کبیرہ ہیں”۔

اس کے بعد پہلے کراچی کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم حیات جو آج کل وائس چیف آف سٹاف ہیں پر دہشتگرد حملے کا ذکر ہے۔ جنرل کی کار کراچی کے اس پل سے گزر رہی تھی جو کلفٹن کو کراچی سے ملاتا ہے کہ دہشتگردوں نے ان پر گولیاں چلا دیں۔ جنرل صاحب کا ڈرائیور اور سات باڈی گارڈ ہلاک ہوگۓ مگر ڈرائیور کا پاؤں گاڑی کے سٹیئرنگ پر رہا جس کی وجہ سے گاڑی چلتی رہی۔ بعد میں جنرل کے اے ڈی سی نے گاڑی پر قابو پالیا۔ دہشتگردوں نے دہماکہ خیز مواد سڑک پر بچھا رکھا تھا مگر موبائل فون کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے وہ پھٹ نہ سکا۔ اس موبائل فون کے ذریعے دہشتگردوں کا سراغ لگا لیا گیا۔ اس حملے کا سرغنہ جو اس واردات سے انکاری تھا اپنی ماں کے کہنے پر جرم قبول کرنے پر راضی ہوا۔

30 جولائی 2004 کو شوکت عزیز پر خود کش حملہ آور نے اس وقت حملہ کیا جب انہوں نے راولپنڈی سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک جلسے سے خطاب کیا۔ شوکت صاحب جو پرویز صاحب کی دی ہوئی بکتربند گاڑی میں سوار تھے اس حملے میں بچ گۓ۔ ایک ٹی وی کیمرہ مین اپنا وڈیو کیمرہ وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اس کیمرے کا رخ حادثے کی طرف ہونے کی وجہ سے سارا حادثہ ریکارڈ ہوگیا۔ اس حادثے میں گاڑی کا ڈرائیور ہلاک ہوا۔  اس حملے میں خود کش حملہ آور کا ایک اور ساتھی بھی تھا جس کو بعد میں حملہ کرنے کی شائد جرأت نہ ہوئی لیکن وہ بعد میں پکڑا نہیں گیا۔ بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ حملہ آور ایک پاکستانی عرفان تھا اور اس حملے کا سرغنہ جیشِ محمد کا امتیاز احمد تھا۔

پرویز صاحب اس حملے کے بعد شوکت عزیز صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں۔ “شوکت عزیز پر ہونے والے حملے کے دوران اور اس کے بعد میں ان کے رویے سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ شوکت عزیز کو ایک پاکستانی جنرل کی طرح گولیوں اور بموں کا سامنا کرنے کی تربیت نہیں ملی بلکہ وہ تو پاکستان آنےسے پہلے نیویارک کے دھاری دارسوٹ پہننے وال بینکر تھے۔ لیکن انہوں نے انتہائی اعتماد اور ضبطِ نفس کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے ان کے بارے میں میری راۓ جو پہلے ہی بہت اچھی تھی اور زیادہ مثبت ہوگئ”۔

 پرویز صاحب دھماکے میں بچ جانے پر شوکت عزیز صاحب کو اپنے کلب کا رکن مانتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہمارے کلب کی رکنیت اب بھی دو پر محدود ہے اور امید کرتے ہیں کہ اس کے مزید رکن نہیں بنیں گے۔

[ان دہشتگردی کے واقعات کو سنانے کا مطلب یہی ہے کہ دنیا کو باور کرایا جاۓ کہ پاکستان نے بھی دہشتگردی کی جنگ میں اپنی وقعت سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اتحادی ان قربانیوں کی لاج رکھتے ہیں یا پھر پہلے کی طرح دوبارہ بھول جاتے ہیں]۔