ویسٹ انڈیز کیخلاف تیسرا ٹیسٹ جیتنے کے بعد جب انعامات بانٹنے کی باری آئی تو سارے انعامات کا حقدار نومسلم کرکٹر محمد یوسف قرار پایا سواۓ سیریز جیتنے کی ٹرافی کے جو انضمام الحق نے بطورِ کپتان وصول کی۔

محمد یوسف سے جب رمیز راجہ نے پوچھا کہ ان کی کارکردگی میں بہتری کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے تو محمد یوسف کا جواب تھا پانچ وقت کی نماز سے حاصل کردہ یکسوئی کی ٹریننگ۔ پاکستانی ٹیم کے کوچ باب وولمر بھی محمد یوسف کے جواب کی تائید کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ محمد یوسف کے مزہب بدلنے کے بعد اس میں یکسوئی اور اپنے کام کو ایمانداری سے انجام دینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔

محمد یوسف شروع سے ہی مزہبی رجحان رکھتے تھے۔ وہ جب عیسائی تھے تب بھی صلیب کا نشان بنا کر ہمیشہ میدان میں اترتے تھے اور دوسال پہلے جب مسلمان ہوۓ تو ہر ٹارگٹ حاصل کرنے کے بعد وہ کھیل کے میدان میں ہی خدا کے سامنے جھکنے لگے۔ ان سجدوں کے دوران جب انہیں تماشائیوں سے پزیرائی ملتی ہے تو اس منظر کی شان ہی اور ہوتی ہے۔ 

 آج بھی محمد یوسف نے رمیز راجہ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے جب تماشائیوں کو پہلے سلام کیا اور پھر بسم اللہ پڑھی تو سٹیڈیم کا منظر دیدنی تھا۔ جب محمد یوسف نے اپنی کارکردگی کو خدا کی مدد کہا اور پانچ وقت کی نماز سے تربیت اور یکسوئی کی بات کی تب بھی سٹيڈیم میں موجود لوگوں نے اسے جی بھر کر داد دی۔

ہمیں معلوم ہے کہ ہماری اس پوسٹ میں مولویت کی جھلک نظر آۓ گی مگر یقین جانیۓ ہم مسلمان چاہے جتنے بھی بے عمل ہوں جب اللہ اور اس کے رسول کا نام سنتے ہیں تو ایک دفعہ جوش میں نعرۂ تقبیر ضرور بلند کرتے ہیں۔

ہمارا ذاتی خیال یہی ہے کہ اگر آدمی مزہبی ہے تو وہ دوسرے لوگوں کی نصبت زیادہ اچھا شہری ہے۔ آدمی جتنا مزہی زیادہ ہوگا وہ اتنا ہی ایماندار، نیک اور مخلص ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ کم علم مزہبی آدمی جوش میں اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں اور بعض اوقات ان کی  کم علمی معاشرے کیلۓ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے لیکن یقین مانۓ ان کی نیت میں فتور نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی معاشرے میں کرپشن پر سروے ہوا تو سب سے کم کرپشن مزہبی اداروں میں ہی پائی گئ۔ اسی بنیاد پر ہمارا یقین ہے کہ اگر پڑھے لکھے باعمل اور کٹڑ مسلمان کو حکومت سونپ دی جاۓ تو وہ ملک سے کرپشن ختم کرکے ایسے اقدامات کرے گا جن سے ملک میں خوشحالی آۓ گی۔

بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ محمد یوسف کی کامیابی کا سہرا بھی ان کی ایمانداری، ینک نیتی اور پرسکون طبیعت کے سر ہی ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ مزہب پر دل سے عمل کرنے سے آدمی کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے اور وہ ایک اچھا شہری ثابت ہوتا ہے۔