تعاقب

911 کے فوراً بعد جب القاعدہ کے بہت سے کارکن افغانستان سے بھاگ کر اور سرحد پار کرکے پاکستان میں آۓ، تب سے ہم ان کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اسامہ بن لادن ہے، جو اس کتاب کے لکھنے کے وقت تک آزاد ہے لیکن ہم نے دوسرے بہت سے کارکن پکڑے ہیں۔ ان میں سے کچھ دنیا بھر میں مشہور ہیں اور کچھ گمنام ہیں۔ ہم نے کل 689 افراد پکڑے ہیں جن میں سے 369 کو امریکہ کے حوالے کیا۔ ہم اب تک ان لوگوں کی کل کروڑوں ڈالر قیمت وصول کرچکے ہیں۔ ان لوگوں کو جو اپنی خامیاں اور ناکامیاں چھپانے کے لۓ ہم پر جانبدارانہ طریقے سے اور عادتاً یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہم دہشتگردی کے خلاف کافی کام نہیں کررہے، سی آئی اے سے صرف یہ پوچھنا چاہۓ کہ وہ پاکستانی حکومت کو کتنی رقم انعام میں اب تک دے چکے ہیں۔

[ اردو والی کتاب سے یہ فقرہ”ہم اب تک ان لوگوں کی کل کروڑوں ڈالر قیمت وصول کرچکے ہیں” جان بوجھ ک حزف کر دیا گیا ہے۔ تاکہ لوگوں کو یہ شک پیدا نہ ہو کہ پرویز صاحب نے 369 افراد صرف قیمت وصول کرنے کیلۓ امریکہ کے حوالے کۓ۔ اچھا ہوتا اگر پرویز صاحب ان افراد کے عوض ملنے والے کروڑوں ڈالروں کے استعمال کی بابت بھی بتا دیتے یعنی یہ رقم بعد میں کہاں گئ اور کیسے خرچ کی گئ]۔

اب یہاں پر پرویز صاحب ان لوگوں میں سے چند کی گرفتاری کی روداد سناتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ  ابوزبیدہ جو فلسطینی تھا اور جس پر 911 کے حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام تھا کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ کیسے گرفتار ہوا۔  سی آئی اے نے اس کی گرفتاری پر پانچ ملین ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا۔ عام گرفتار کارکنوں کی نشاندہی پر تیرہ جگہوں پر یکدم چھاپے مار کر ابوزبیدہ کو اس کے ستائیس ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا اور پھر 30 مارچ 2002 کو اسے امریکہ کے حوالے کردیا گیا۔

یہاں پر پرویز صاحب اس بات کی بھی صفائی پیش کرتے ہیں کہ دہشتگردی میں ملوث اور ناپسندیدہ غیرملکیوں کر امریکہ کے حوالے کیوں کیا گیا۔ وہ لکھتے  ہیں کہ جب ان غیرملکیوں کا ملک انہیں واپس لینے سے انکار کردیتا ہے اور وہ امریکہ کو مطلوب ہوتے ہیں تو انہیں امریکہ کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

[یہاں پر پرویز صاحب نے پاکستانی قانون کی بات نہیں کی اور یہ نہیں بتایا کہ پاکستانی قانون اس بارے ميں کیا کہتا ہے۔ دوسرے ابوزبیدہ کے بدلے جو پانچ ملین ڈالر ملے وہ کہاں گۓ؟]۔

اس کے بعد خالد شیخ محمد کی گرفتاری بیان کی گئ ہے۔ خالد کا نام ایف بی آئی کی لسٹ پر نمایاں تھا۔ وہ کویت میں پیدا ہوا اور ایران کا شہری تھا۔ اس نے امریکہ سے ذراعت میں تعلیم حاصل کی اور وہ ایک دہشتگرد تنظیم افغان الومینائی کا رکن بھی تھا۔ رمزے یوسف اس کا بھتیجا تھا اور دونوں چچا بھتیجے نے ملکر کئی دہشتگردی کے منصوبےبناۓ مگر یوسف کی گرفتاری کے بعد وہ دھرے کے دھرے رہ گۓ۔

خالد کی پہلے اپنی ایک تنظیم تھی مگر بعد میں وہ کئی کوششوں کے بعد القاعدہ میں شامل ہوگیا اور اپنے خاندان کو قطر سے قندھار لے آیا۔ 911 کا منصوبہ اسامہ، عاطف اور اس کے درمیان ہی خفیہ رکھا گیا تھا۔ ملا عمر کو امریکہ کی سرزمین پر دہشتگردی کے منصوبے کا علم ہوگیا تھا اور کہتے ہیں کہ وہ اس سے خوش نہیں تھا لیکن غالباً وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا۔

محمد عاطف اور اسامہ بن لادن نے نائن الیون کی کاروائی کے لۓ کارکنوں کے ناموں کی ایک فہرست بنائی اور کے ایس ایم سے ان میں سے مناسب ترین کارکنوں کا انتخاب کرنے کے لۓ کہا۔ القاعدہ کی مجلس شوریٰ نے اگست 2001 میں منصوبے کی منظوری دے دی۔ تمام اہم کارکنوں کو مع محمد عاطف، نواف الحزنی اور خالدالمہدر تربیت دی گئ اور کے ایس ایم نے انہیں امریکہ روانہ کردیا۔ دو افراد مصطفیٰ احمد اوساوی اور عمار البلوچی[کےایس ایم کا ایک اور بھتیجا] کو رقم اور اغوا کندگان کو مہم کے لۓ ضرورت کی چیزیں فراہم کیں۔

اس فیصلہ کن دن کے ایس ایم اور اس کے چار دہشتگرد ساتھیوں، رمزی بن الشبہ، مصطفیٰ احمد ہوساوی، عمار البلوچی اور جعفر الطیار نے کراچی کے ایک انٹرنیٹ کیفے میں بیٹھ کرورلڈ ٹریڈ سینٹر پر پہلے حملے کو دیکھا۔ پھر وہ فوراً ایک خفیہ جاۓ پناہ میں چلے گے، جہاں انہوں نے اپنے تباہ کن منصوبے کا بقیہ حصہ دیکھا۔ کے ایس ایم کہتا ہے کہ جب اس نے دونوں برجوں کو گرتے ہوۓ دیکھا تو اپنی کارگزاری پر بہت متعجب ہوا۔ 21 اور 22 ستمبر 2001 کو اسامہ بن لادن نے کے ایس ایم کو افغانستان واپس بلا لیا حالانکہ وہ وہیں رہنا چاہتا تھا، جہاں اس وقت تھا۔ اغوا اور خود کش واقعات کے تجزیے کے بعد وہ دونوں افغانستان کے دفاع اور اپنے خاندانوں کی پاکستان منتقلی کے انتظامات میں مصروف ہوگۓ۔

[اگر یہ سب سچ ہے اور کے ایس ایم اپنے جرم کا اقرار کرچکا ہے تو پھر ابھی تک اس پر مقسمہ کیوں نہیں چلایا گیا؟ اب تو سنا ہے کہ تفتیش کے بعد اسے گٹمو منتقل کردیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے اس پر مقدمہ چلانے سے سکیورٹی رسک کا خطرہ ہو]۔

ایک مخبر کی اطلاع پر راولپنڈی میں کے ایس ایم کو اس کے ایک ساتھی مصطفیٰ الاوساوی کیساتھ گرفتار کرلیا گیا۔ کے ایس ایم کو گرفتار کرتے ہوۓ اس نے گولی چلا دی جس سے ایک افسر بھی زخمی ہوا مگر بعد میں دونوں پر قابو پالیا گیا۔ تین دن اسے اپنی تحویل میں رکھ کر تفتیش کی اور ساری معلومات حاصل کرنے کے بعد اس کو بھی امریکہ کے حوالے کردیا گیا۔

[اخبارکہتے ہیں کہ جب کے ایس ایم کو گرفتار کرنے کیلۓ دھاوا بولا گیا تو کئ امریکی بھی پاکستانی افسروں کی رہنمائی کررہے تھے مگر پرویز صاحب نے اس کا ذکر نہیں کیا]۔

آگے چل کر پرویز صاحب ایک اور گرفتاری کا حال اسلۓ بیان کرتے ہیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ پاکستان نے ان غیرملکی دہشتگردوں کو گرفتار کرکے کتنی معلومات حاصل کیں اور دہشتگردوں کی خواہشات اور منصوبوں سے بھی پردہ اٹھايا۔

یہ ایک کراچی میں پیدا ہونے والا پاکستانی ہے جس نے کمپیوٹر انجنیئرنگ میں ڈگری حاصل کی اور اسے کےایس ایم نے مارچ 2002 میں بھرتی کیا تھا۔ اگست 2003 میں اسے پاکستان کے قبائلی علاقے وانا کے مقام پر حمزہ رابعہ، حمزہ الجوفی، ابوفراج اللبی اور ابوحاوی العراقی سے ملنے کیلۓ بھیجا گیا۔ اس نے 2001 میں افغانستان ميں کارا باغ کے محاذ پر جنگ میں بھی حصہ لیا اور اس کے سر پر پانچ ملین ڈالر کا انعام تھا۔ دسمبر 2003 کے بعد وہ لاہور میں القاعدہ کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے نگران کی حیثیت سے قیام پزیر ہوا جس کی سربراہی خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد حمزہ ربیعہ نےسنبھالی تھی۔ وہ انگلینڈ میں قائم ایک گروپ کا بھی رکن تھا اور القاعدہ کی ذرائع ابلاغ سے متعلق کمیٹی کی مدد کرتا تھا۔

القاعدہ کے دو اعلیٰ کارکنوں عمارالبلوچی اور خلاد بن اتاش کی گرفتاری کے بعد یہ شخص کراچی میں دہشتگرد تنظیم کا مرکزی نگران بن گیا۔ 2004 کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل دنیا بھر میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی القاعدہ کی خواہش کی تکمیل کیلۓ بارہ افراد پر مشتمل خودکش دستے کو تربیت دینے کیلۓ اسے سب سے موزوں آدمی سمجھا گیا اور اس نے یہ کام شکائی صوبہ سرحد میں انجام دیا اور اس کے بعد انہیں کراچی بھیج دیا گیا۔ اس دوران وہ القاعدہ کی اعلیٰ قیادت مع کے ایس ایم، حمزہ ربیعہ، فراج اللبی، ہادی العراقی، حمزہ الجوفی۔ حنبلی گن گن [حنبلی کا بھائی] اور ابو مصعب البلوچی[کے ایس ایم کا ایک اور بھتیجا اور رمزی یوسف کا بھائی] کےساتھ رابطے میں رہا۔

یہ بات قابلِ فہم ہے کہ ہمارے امریکی دوست اس کی سرگرمیاں ختم کرنے کے بہت خواہش مند تھے۔ وہ اس کا پیچھا کررہے تھے اور انہوں نے ہمیں اس کے اتے پتے کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ ان معلومات کی بنا پر ہمارے ایک خفیہ ادارے نے اس کا سراغ لگایا اور 21 جولائی 2004 کو اسے لاہور سے گرفتار کرلیا۔ اس کے پاس اور اس کے کمپیوٹر میں معلومات کا خزانہ تھا۔

اس کی گرفتاری کے بعد پتہ چلا کہ کے ایس ایم لندن ہیتھرو ہوائی اڈے، لندن کے زیرِ زمین ریلوے اور بہت سی دوسری بلڈنگوں پر بھی دہشتگرد حملے کرنا چاہتا تھا اور اس کی منصوبہ بندی اس پاکستانی کو سونپی تھی۔ اس کے کمپیوٹر میں جمع معلومات نہ صرف برطانوی حکام کو فراہم کیں بلکہ کمپیوٹر کے مالک سے بھی انہیں ملوایا۔ بعد ميں اس سے صدیق خان اور شہزاد تنویر سے تعلق کا بھی انکشاف ہوا جو 7 جولائی 2005 کو جسے اب 7/7 کہتے ہیں کے خودکش حملوں میں حصہ لینا چاہتے تھے۔ صدیق اور تنویر کے بارے میں یہ تمام معلومات 28 جولائی 2005 یعنی لندن پر حملوں کے اکیس دن بعد تک ہمیں فراہم نہیں کی گئ تھیں۔ حالانکہ صدیق اور تنویر کی پہلی نشاندہی سترہ مہینے قبل ہوئی تھی۔

لندن کی زیرِ زمین ریلوے کی کاروائی سے پہلے القاعدہ نے چیک ریپبلک، سلوواک ریپبلک، کروشیا، پولینڈ، رومانيہ اور مالٹا کے ہوائی جہازوں اور ان کی قومی ہوائی کمپنیوں کو ہیتھرو پر حملہ کرنے کیلۓ استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، کیونکہ ان ہوائی اڈوں پر اور ان کے ہوائی جہازوں پر حفاظتی انتظامات ڈھیلے تھے۔ ان حملوں کیلۓ سکیورٹی کی بنا پر عربوں کی بجاۓ بوسنیا اور افغانی باشندے استعمال کرنے کا پلان بنایا گیا۔ انہوں نے سعودی عرب میں القاعدہ کے نگران حاظم الشاعر[جو سعودی عرب میں 2004 میں ہلاک ہوگیا] س اغوا شدہ ہوائی جہازوں کو چلانے کیلۓ ہوابازوں کی بھرتی کرنے کیلۓ کہا اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ  طالب علموں کو ہوابازی کے سکولوں میں بھیجے۔ ایسی پروازوں کا انتخاب کیا جاۓ جو ایک ہی وقت پر ہیتھرو ہوائی اڈے پر اترتی ہوں۔ ہائی جیکرز کو کاروائی کرنے کا اشارہ، ہوائی جہاز کے زمین پر اترنے سے پہلے اپنی حفاظتی پیٹیاں باندھنے کی علامت کے روشن ہونے سے ہوگا۔ وہ جہاز پر موجود سٹیل کے چھری کانٹے اور شراب کی ٹوٹی ہوئی بوتلوں کے ٹکڑے بطورِ ہتھیار استعمال کریں گے۔ وہ ہوائی جہازوں کو ہیتھرو کی مختلف عمارتوں سے ٹکرائیں گے۔ کے ایس ایم نے بتایا کہ القاعدہ کے ایک اور اہم رکن خلادبن اتاش نے منصوبہ بندی کے اختتامی حصے میں تجویز دی کہ ہدف کو ہیتھرو کی بجاۓ اسرائیل کے کسی مقام پر منتقل کردیا جاۓ۔ لیکن کے ایس ایم نے اس سے اتفاق نہ کیا۔

یہ تمام معلومات برطانوی حکام کو دے دی گئیں اور مجھے خوشی ہے کہ ہیتھرو پر حملہ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔ ہماری بہت سی خاموش کامیابیوں میں ایک یہ بھی تھی۔ 

انہی معلومات کی بنا پر ہم گجرات[پنجاب] میں پندرہ دہشتگردوں کے ایک ٹولے تک پہنچے، جن ميں تنزانیہ کا ایک تیس سالہ شہری اور ماہر کمپیوٹر احمد خلیفان غیلانی بھی تھا، جسے امریکہ نے 16 دسمبر 1988 کو دارالسلام اور نیروبی میں قائم امریکی سفارتخانوں میں ہونے والے دھماکوں میں ملوث ہونے کا ملزم ٹھرایا تھا۔ اسے انتہائی صفائی سے جعلی سفری دستاویزات بنانے میں مہارت حاصل تھی۔ اس کے کمپیوٹر میں بہت سے ملکوں کے ویزے اور آمد اور خروج کی مہریں تھیں۔ غیلانی، دہشت گردوں کو تربیت بھی دیتا تھا اور دہماکہ خیزآلات بھی بناتا تھا۔ وہ امریکہ کیلۓ اتنا اہم تھا کہ انہوں نے اس کی گرفتاری کیلۓ اطلاع فراہم کرنے کا انعام 25 ملین ڈالر رکھا تھا۔ ہم نے 4 ستمبر 2004 کو اسے امریکی حکام کے حوالے کردیا۔

اس سے باز پرس کے دوران پنجاب میں موجود القاعدہ کے ایک اور نیٹ ورک کا انکشاف ہوا۔ ہم نے اس کی فراہم کردہ اطلاعات پر عمل کرتے ہوۓ مختلف افراد کو جن میں القاعدہ کے کارکن اوران کے خاندان کے افراد [اور ایک نوزائیدہ بچہ] شامل تھے، گرفتار کیا۔ یہ ان پندرہ افراد کے علاوہ تھے جنہیں ہم پہلے ہی گجرات سے گرفتار کرچکے تھے۔ اس طرح اس نیٹ ورک کا بھی خاتمہ ہوا۔

اب تک جو بیان کیا گیا ہے وہ القاعدہ اور پاکستان میں اس کی شریک دہشتگرد تنظیموں کیخلاف چند کاروائیوں کا منظرنامہ ہے، لیکن اس سے اس جنگ کی وسعت اور تیزی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے جس کے خلاف ہم نے اپنے شہروں میں ایک کامیاب جنگ لڑی ہے۔

یہ سمجھنے کیلۓ کہ پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کرنے کے کیا معنی ہیں، ہمیں 25 دسمبر 2003 کی طرف واپس جانا ہوگا، جب میں اپنی گاڑیوں کے قافلے پر بموں کے حملے میں زندہ سلامت بچ گیا۔