آج کل کام کاج میں مصروفیت کی وجہ سے بلاگنگ میں معمول سے زیادہ وقفہ ہو گیا ہے مگر شکر ہے اب اردو بلاگز اتنے زیادہ ہو گئے کہ ہماری غیرحاضری کوئی اہمیت نہیں رکھے گی۔

جب تک شیخ رشید کی حمایت پی پی پی اور مسلم لیگ ق نے نہیں کی تھی ہماری ہمدردیاں شيخ رشید کیساتھ تھیں کیونکہ موجودہ حالات میں شیخ رشید جیسے حزب اختلاف کے رکن کی بہت ضرورت تھی۔ مگر جب ہم نے دیکھا کہ شیخ صاحب الیکشن جیت کر پھر سے نئے ڈکٹیٹر کی جھولی میں بیٹھ کر وزارت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں ہم نے اپنی ہمدردیاں واپس لے لیں۔ شاید یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ شیخ صاحب الیکشن ہار گئے۔ ویسے ہم کالم نگار جاوید چوہدری کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ شیخ رشید کو ملنے والے بیالیس ہزار ووٹ حکمرانوں کیلیے لمحہ فکریہ ہیں۔

صدر زرداری کی سواری گزارنے کیلیے سڑکیں بلاک کر کے کوئٹہ میں جو تین گھنٹے ٹریفک جام ہوئی اس میں ایک عورت نے رکشے میں ہی بچے کو جنم دے دیا۔ اگر یہ واقعہ کسی ترقی یافتہ ملک میں پیش آیا ہوتا تو اب تک تھرتھلی مچ چکی ہوتی مگر ہمارے صدر نے عورت کی تین گھنٹے کی زچگی کی تکلیف کا پانچ لاکھ معاوضہ دے کے بات ختم کر دی۔ لیکن صدر صاحب کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے اور عوام کو پہنچنے والی ایک ایک تکلیف کا حساب رکھے ہوئے ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تکالیف کا معاوضہ خدا کس صورت میں صدر زرداری سے مانگتا ہے۔

اس پر طرہ یہ کہ وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بچے تو ہوائی جہاز میں بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ کہ کر انہوں نے زچہ و بچہ کی مزید توہین کی ہے۔ کہاں جہاز اور کہاں رکشہ۔ حکمرانوں کو تب ہی عقل آئے گی جب ایسی ہی صورتحال میں ان کا کوئی عزیز پھنسے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کےعزیز رکشوں میں سفر نہیں کرتے اور جو رکشوں میں سفر کرتے ہیں وہ ان کے عزیز نہیں ہوتے مگر قدرت بھی دیکھ رہی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ان لوگوں کی ایسی لاپرواہیوں کا بھی احتساب ہو گا۔

صدر زرداری نے ریٹائرڈ جج نسیم حسن شاہ کے چھوٹے قد کا مذاق اڑا کر ان کی انسانی تذلیل کی ہے جو ترقی یافتہ معاشروں میں بہت بڑا جرم ہے مگر بقول جج صاحب کے صدر ملک کے بادشاہ ہیں وہ جو چاہے منہ سے نکال سکتے ہیں۔ اگر زرداری صاحب کو بھٹو کی غیرقانوی پھانسی کی اتنی ہی فکر ہے تو بھڑکیں مارنے کی بجائے وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ اگر ان کی زبان اسی طرح پھسلتی رہی تو ایک دن یہ انہی کیلیے وبال جان بن جائے گی۔