گھراؤ

اس باب میں جو لمبی چوڑی تفصیل بیان کی گئ ہے اس کا مختصر خاکہ کچھ اس طرح بنتا ہے۔

ان حملوں کی تحقیق راولپنڈی کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سپرد کی گئ۔ یہاں پر بھی مختلف خفیہ ایجنسیوں کے درمیان معلومات کا تبادلہ نہیں کیا جاتا اور ہر ایجنسی کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہے مگر جنرل کیانی کے حکم پر سب نے ایک دوسرے کیساتھ تعاون کیا۔ مجرموں تک رسائی موبائل فونوں اور شناختی کارڈوں کے ذریعے ممکن ہوئی۔ لیکن تحقیقات میں بریک تھرو مشتاق نامی شخص کی گرفتاری سے ملا اور اس نے بتایا کہ ان حملوں میں فوج کے جوان بھی ملوث ہیں۔ اس کے بعد صلاح الدین کی گرفتاری اور اس کے بعد فراج اللبی سے تعلقات کا ذکر ہے۔ صلاح الدین کی گرفتاری کے بعد امجد فاروقی کی تلاش کی گئ۔ 

ایک موقع پر پرویز صاحب کہتے ہیں کہ ایک دہشتگرد کا سر حملے کے مقام سے قریب تھانے کے صحن سے ملا۔ اس کی شناخت مشکل تھی مگر اس کے چہرے کو پلاسٹک سرجری سے دوبارہ بنا کر اور اس کے شناختی کارڈ کی ادھوری کاپی سے معلوم ہوا کہ وہ جمیل تھا جو راولاکوٹ میں رہتا تھا۔ دوسرے خود کش حملہ آور کی شناخت اس کے جعلی شناختی کارڈ کی درخواست کو تصدیق کرنے والے کے ذریعے ممکن ہوئی، جس کا نام خلیق تھا۔

پرویز صاحب سمجھتے ہیں کہ زیادہ تر دہشتگرد گھر کے ماحول اور غربت کے ستاۓ ہوۓ جہادی ہوتے ہیں۔ وہ شناختی کارڈ کی کاپیاں شائد اسلۓ پاس رکھتے ہیں تاکہ بعد میں ان کی مشہوری ہوسکے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بعد میں ان کی شناخت ان کی تنظیم کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہی چھوٹي چھوٹی غلطیاں وارداتوں کو حل کرنے کا سبب بنتی ہیں۔

ان کے حملے میں استعمال ہونے والی منی وین کی شناخت بھی وین بیچنے والے کے ذریعے ملزم کی شناخت کا سبب بنی اور اس طرح جمیل کو شناخت کرلیا گیا۔

پرویز صاحب کو یومِ دفاع میں پریڈ کے دوران ہلاک کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا اور اس مقصد کیلۓ راکٹ اسلام آباد لاۓ گۓ مگر  ارشد کی وائیس چیف آف آرمی سٹاف کے حفاظتی دستے سے گرفتاری نے یہ منصوبہ خاک میں ملا دیا۔

2 جنوری 2004 کو تحقیقات کے نتیجے میں ایک گاڑی پکڑی گئ جو دہشتگردی کیلۓ استعمال کی جانی تھی اور اس کی گیس کے سلینڈر میں دہماکہ خیز مواد بھرا ہوا تھا۔  گاڑی جس گھر سے ملی اس کی پانی کی ٹينکی میں بھی دہماکہ خیز مواد چھپا کر رکھا ہوا تھا۔

ان تمام گرفتاریوں اور تحقیقات کے بعد نیٹ ورک کا ڈھانچہ سمجھ میں آنا شروع ہوگیا۔  پتہ یہی چلا کہ ابوفراج اللبی ہی دوسرے حملے کا خالق اور ہدائت کار تھا۔ صلاح الدین صرف ایک پیامبر تھا۔ معلوم یہ بھی ہوا کہ ایس ایس جی کے کمانڈو جنہیں گرفتار کیا گیا صرف اس منصوبے کے چھوٹے اداکار تھے۔ سازش کی کڑی تب مکمل ہوئی جب امجد فاروقی کا نام سامنے آيا۔

[اگلے پیرا گراف میں پرویز صاحب اتحادیوں کی کارکردگی کواپنے جیسی دکھا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان سب گرفتاریوں کے پیچھے ان کے محکموں کی کارکردگی تھی اور اتحادیوں کے پاس کچھ تحقیقات کے ماڈرن ذرائع نہیں تھے اور اس طرح ان کی تضحیک کرکے اپنے آپ کو اعلیٰ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ اتحادیوں کے اپنے اخبارات نے ہر بڑے بریک تھرو کے بعد یہی بتایا کہ اتحادیوں کی معلومات اور مدد کیساتھ سارے اہم دہشتگرد گرفتار ہوۓ۔ اب یہ پیراگراف پڑھۓ اور خود فیصلہ کیجۓکہ کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ]۔

دوسرے حملے کی تحقیقات میں مدد کرنے کیلۓ ہمارے امریکی دوست ہماری مدد کرنے کی پیشکش کرتے رہے۔ ایک روز کیانی نے انہیں اپنے صدردفتربلایا اور دھماکہ خیز مواد کے بارے میں ان سے تکنیکی مدد مانگی۔ امریکیوں نے کہا کہ ان کے لۓ جاۓ وقوعہ دیکھنا ضروری ہے۔ جس کی کیانی نے اجازت دے دی۔ پھر ان سے کیانی نے پوچھا کہ انہیں کتنا وقت درکار ہے؟ انہوں نے کہا کہ چار ہفتے۔ چار ہفتوں کے بعد انہوں نے اپنی رپورٹ کیانی کو پیش کردی۔ کیانی کو تعجب ہوا کہ اس رپورٹ میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی، جسے وہ خود نہ جانتے ہوں گے۔ اس میں صرف یہ تھا کہ کس قسم کا دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔ کیانی نے ان سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسی چیز تھی، جو ان کی نظر سے نہ گزری ہو؟ جواب دیا گیا کہ نہیں اور ان کے پاس یہی معلومات تھیں۔ کیانی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم نے اپنی تحقیقات مکمل کرلی ہیں، بہت سی گرفتاریاں کی ہیں اور بڑے اہداف حاصل کرلۓ ہیں۔ یہ وہ مدد تھی، جو ہمیں اپنے دوستوں سے ملی۔

[يہ ہو ہي نہيں سکتا کہ کياني صاحب نے اتحاديوں کو اس طرح کا جواب ديا ہو۔ ہم لوگ تو گوروں کے آگے سر سر کہتے  نہيں تھکتے اس طرح ان کي تحقيقات کر ان کے منہ پر عام سي کيوں کہیں گے]۔

ابوفراج اللبی اس تالاب میں سب سے بڑی مچھلی تھا مگر امجد فاروقی پہلے گرفتار ہوا۔ امجد فاروقی کو اس کے ٹیلیفون کی مدد سے ڈھونڈا گیا اور جب پتہ چلا کہ وہ نواب شاہ جارہا ہے تو ادھر جہاں وہ چھپا ہوا تھا اس گھر کا محاصرہ کرلیا گیا۔جب اس کی مرضی پر افسر سے بات نہ کرائی گئ تو وہ آنسو گیس کی وجہ سے باہر نکلا اور اس نے سرکاری کارندوں کی طرف فائر کرتے ہوۓ ہوۓ دوڑ لگا دی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ اپنی شال کے اندر اس نے اسلحہ چھپا رکھا ہے۔ کارندوں نے اپنی جان بچانے کیلۓ اس پر گولی چلا دی اور وہ وہیں مر گیا۔ 

ابو فراج گرفتاری سے بچنے کیلۓ کراچی سے پشاور تک اپنا مقام بدلتا رہا۔ ابوفراج اللبی کی گرفتاری میں اس کے ایک اسیر ساتھی کا حصہ تھا۔ حکومت نے گرفتار ساتھی کو اپنےساتھ ملایا اور اسے اللبی سے رابطہ کرنے کو کہا۔ کئی دفعہ وہ ملاقات کاوعدہ کرکے حکومت کے مخبر سے ملنے نہ آيا۔ ایک دفعہ اس نے پہلے اپنے ساتھی کو ملاقات کیلۓ بھیجا جو مارا گیا۔ آخر کار وہ ایک مزار پر ملنے کیلۓ آہی گیا اور ادھر گرفتار کرلیا گیا۔

[پرویز صاحب نے اس کی گرفتاری کی خوش خبری جنرل ابی زید اور صدر بش کو مکالمے کی صورت میں جہک چہک کر بیان کی ہے]۔

“تمہارےلۓ خوش خبری ہے” میں نے جنرل ابی زید کمانڈر انچیف سینٹ کام سے کہا۔ جب وہ مئی 2005 میں مجھ سے ملنے آۓ۔

“ہم نے اللبی کو پکڑلیا ہے” میں ابی زید کو ایک قابل جنرل اور ایک اچھا دوست سجمھتا ہوں۔

“واقعی، کب” امریکی نے متعجب ہو کر پوچھا[کیا دوست کو اسی طرح مخاطب کیا جاتا ہے؟]۔

 “چندروز ہوۓ۔” میں نے جواب دیا

“اب وہ کہاں ہے؟” ابی زید نے پوچھا

“وہ اسلام آباد میں ہے۔” میں نے اطمینان سے کہا۔ “براۓ مہربانی صدر بش کو بتا دیں یا میں بتاؤں۔”

“بہت اچھا ہوگا کہ آپ ہی انہیں بتائیں۔ ابی زید نے جوشیلی آواز میں کہا۔

“معلوم نہیں” میں نے کہا۔ “آپ ہی انہیں بتائیں۔”

“نہیں میں نہیں، براۓ مہربانی آپ ہی انہیں بتائیں۔”

میں نے جواب دیا کہ میں بتا دوں گا۔ اسی شام میں نے صدر بش کو فون کیا اور خبر سنائی۔ “آپ نے اللبی کوپکڑ لیا۔” انہوں نے جوشیلی آواز میں کہا۔ اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر ایمن الزواہری کے علاوہ القاعدہ کے جس رکن کا نام بش جانتے تھے، اور مجھ سے کہا تھا کہ اگر میرے لۓ ممکن ہو تو اسے گرفتار کرلوں، وہ ابوفراج اللبی تھا۔

[اب جس طرح یہ مکالمہ لکھا گیا ہے اس سے چھوٹے پن اور محکومیت کی بو آتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ مکالمہ اسی طرح اردو ترجمے سے نکال دینا چاہۓ تھا جس طرح پکڑے جانے والے سروں کی قیمت کا فقرہ نکالا گیا]۔

آخر میں مشتاق کے فرار اور پھر اس کی دوبارہ گرفتاری کی تفصیل بیان کی گئ ہے۔ وہ باتھ روم کے بہانے گیا اور فوجی ڈانگری پہن کر سوۓ ہوۓ گارڈ کے اوپر سے گزرا اور گیٹ سے باہر نکل گیا۔ گیٹ والوں نے سمجھا کہ وہ ائیرفورس کا مکینک ہے۔ پھر وہ وردی والے کی سائیکل پر لاری اڈے پہنچا اور غائب ہوگیا۔ اس کی گرفتاری اس کي ٹیلیفون کالوں اور جی پی ایس [گلوبل پوزیشنگ سسٹم] ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہی عمل میں آئی۔ اس کی کہانی میں اس کی دوست کا بھی ذکر کیا گیا ہے جسے اس نے اپنے فرار کی خبر دی مگراس کی دوست نےاسے بتایا کہ وہ اس سے فارغ ہوگئ ہے اورا س نے کسی اور سے دوستی کرلی ہے۔ یہ سن کر اسے اتنا غصہ آیا کہ اس نےدھمکی دی، وہ جلد از جلد گجرات آکر رقیب کو قتل کردےگا۔ [اس کی دوست کا ذکر اسلۓ کیا گیا ہے تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ مزہبی انہتاپسند بھی ناجائز عشق کرتے ہی]۔  جب وہ لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوۓ شاہراہ پر تھا، تو وہ بس میں سب سے پچھلی سیٹ پر سورہا تھا اور اس کا موبائل فون اس کی جیب میں آن تھا اور اسی فون کی وجہ سے آئی ایس آئی نے اسے ٹریک کیا۔[یہ جی پی ایس سسٹم پاکستان کےپاس نہیں تھا اور امکان غالب ہے کہ امریکہ نے مشتاق کو ٹریک کرنے کیلۓ امداد فراہم کی ہو]۔

جب آئی ایس آئی افسر نے اس سے اپنی شناخت کرانے کو کہا  تو مشتاق نے جواب دیا کہ “تمہیں معلوم ہے کہ میں کون ہوں۔”