جب چور چوری کرتا ہے تو اسے یہی یقین ہوتا ہے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا۔ جب قاتل قتل کرتا ہے تو وہ اپنی طرف سے قتل کا کوئی نشان نہیں چھوڑتا مگر قدرت کبھی کبھار چور اور قاتل دونوں سے ایسے احمقانہ فیصلے کرا دیتی ہے کہ وہ پکڑے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہی کچھ رانا نوید اور کامران اکمل کیساتھ ہوا ہو۔

دونوں کرکٹرز میچ فکسنگ کے الزامات سے انکار کر رہے ہیں مگر کرکٹ بورڈ کہتا ہے کہ اسے مکمل ثبوت فراہم کیے گئے ہیں۔ جب ثبوت پاس ہیں تو پھر دیر کرنے کی وجہ اپنی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اعجاز بٹ نے بھی غلطی کی جو میڈیا کے سامنے اس مسئلے کا تذکرہ کیا۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ خاموشی سے ان الزامات کی تحقیقات کرتے اور نتائج سے میڈیا کو آگاہ کر دیتے۔

رانا نوید جتنا مرضی خاموشی اختیار کیے رکھے، کامران اکمل جتنا مرضی میڈیا کے سامنے جذباتی ہو جائے اور اپنی ماں کی بیماری کو ڈھال بنائے انہیں اب ان الزامات کیساتھ تب تک جینا ہو گا جب تک کرکٹ بورڈ کسی فیصلے کا اعلان نہیں کرتا۔

بات وہی پرانی ہے کہ ہم لوگ اکثر شارٹ کٹ کے ذریعے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں کبھی کبھار اسی کوشش میں اپنا پورا ماضی داغ دار کر لیتے ہیں اور مستقبل کو بھی برباد کر بیٹھتے ہیں۔ یہ حرکت وہی کرے گا جسے اپنے زور بازو پر بھروسا نہیں ہو گا اور وہ سمجھ رہا ہو گا کہ کچھ دیر بعد وہ ٹیم میں نہیں رہے گا۔ اس لیے جتنا مال سمیٹا جا سکتا ہے سمیٹ لو۔ یہ عادت ہماری گھٹی میں حکمرانوں نے ڈالی ہے اور ایک قومی بحران کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔