مزہب اور دہشت گردی – ایک تجزیہ

ايک مرتبہ رات کی خاموشی میں، اپنے گھر کی لائبریری میں بيٹھا، میں ان خیالات میں گم ہوجاتا ہوں کہ پاکستان کو کیا ہوگیا ہے؟ ہماری قومی اقدار میں خرابیوں کی کیا وجوہات ہیں؟ ایک وقت تھا کہ کبھی کبھار ہونے والے شیعہ، سنی اختلافات کے علاوہ ہم مکمل طور پر ایک روايتی اور متوازن معاشرہ تھے۔ ہمارے اندر موجودہ دہشت گردی اور انتہاپپسندی کی وبا کیسے پھیل گئ؟

ہماری پریشانیوں کا دور 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے ساتھ شروع ہوا۔ روسیوں کی، پاکستان کے ساحلوں پر بحرِہند اور بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک پہنچنے کی ہمیشہ سے خواہش رہی تھی۔ ہمیں اچانک یہ احساس ہوا تھا کہ ہمیں دو طرف سے خطرہ ہے۔ مشرق سے بھارت اور مغرب سے سوویت یونین اور اس کی کٹھ پتلی افغان حکومت۔ پاکستان بری طرح خطرات سے گھرا ہوا تھا۔ قوم اور اس کی فوج ایک مخمصے میں گرفتار تھی۔ ان خطروں کی وجہ سے، ایک طرح سے یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ مغرب نے، جس کی قیادت رونلڈ ریگن کے انتخاب کے بعد امریکہ کر رہا تھا، سوویت امنگوں کو روکنے کے لۓ افغانستان کا انتخاب کیا۔ افغانستان میں جہاد کا آغاز کیا گیا اور پاکستان، افغانستان کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے اس جہاد کی امداد اور راستہ فراہم کرنے میں ناگزیر اتحادی ملک کا درجہ حاصل کرگیا۔ افغان جنگجو سرداروں اور ان کے اسلح بردار ساتھیوں کو سوویت یونین سے لڑنے کے لۓ مسلح کیا گیا اور مالی امداد دی گئ۔ تمام اسلامی دنیا سے آۓ ہوۓ 20 سے 30 ہزار مجاہدین کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کچھ مدرسوں کے طلبا کو تربیت اور مالی امداد دے گئ، انہیں مسلح کیا گیا اور سوویت فوجوں کا مقابلہ اور افغانوں کی کمک کے لۓ جانے کی حوصلہ افزائی کی گئ۔ 1979 سے پہلے ہمارے مدرسے تعداد میں کم اور ان کی مصروفیات بہت سادہ تھیں۔ افغان جنگ کے دوران، ضیاالحق کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے، جو افغانستان پر سوویت قبضے کے خلاف جہاد کے بڑے حامی تھے، یہ مدرسے اہمیت حاصل کرگۓ۔

[مدرسوں کا واویلا مچانے کی اس وقت ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے موجودہ مدرسے صرف اور صرف دین کی تعلیم کیلۓ مختص ہیں اور ان کے بارے میں یہ سوچنا کہ وہ دہشت گرد پیدا کررہے ہیں سراسر زیادتی ہے۔ ہاں ان طلبا کو سب سے پہلے حکومت نے استعمال کیا ۔ اب جبکہ افغان جنگ ختم ہوچکی ہے اور حکومت کو بھی طلبا کی ضرورت نہیں رہی، مدرسے جنگ کو بھول کر طلبا کی تعلیم و تربیت میں دوبارہ مصروف ہوچکے ہیں۔ لیکن یورپ کو اب ان مدرسوں سے یہ ڈر نہیں کہ یہاں سے جنگجو پیدا ہوں گے بلکہ یہ ڈر ہے کہ یہاں سے وہ کھیپ تیار ہوکر نکلے گی جو اپنے مزہب کی خاطر جان دینے سے بھی گریز نہیں کرے گی]۔

1980 کی دہائی میں مزہبی انتہاپسندی، صدرضیاالحق کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے زور پکڑتی گئ۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس جہاد میں صوبہ سرحد کے کٹرملا شریک تھے، کیونکہ افغان پختون اسلام کی بنیادی اور خالص تشریح پر یقین رکھتے ہیں۔ دراصل ضیاء نے اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کی وجہ سے پورے پاکستان میں اور اس کے باہر بھی بے لچک مزہبی جماعتوں کا حلقہ بنا لیا، جس سے پاکستان کی بہت بڑي اکثریت کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ کافر سوویت فوج سے لڑنا جہادیوں کے لۓ ایک مقدس فریضہ بن گیا اور بے شمار پاکستانیوں نے اس میں شمولیت اختیار کرلی۔

[لگتا ہے پرويز صاحب انجانے ميں يہ جملہ “کيونکہ افغان پختون اسلام کي بنيادي اور خالص تشريح پر يقين رکھتے ہيں” لکھ گۓ ہيں۔ اس جملے سے تو يہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغانوں کے علاوہ باقي سارے مسلمان پرويز صاحب اور ان کي حکومت سميت اسلام کي بنيادي اور خالص تشريح پر يقين نہيں رکھتے۔ اس کا مطلب يہ ہوا کہ  افغانوں کے علاوہ دوسروں کا اسلام بنيادي اور خالص نہيں۔ اگر يہي سچ ہے تو پھر کتاب میں کعبے کي سير کي تصوير کيا صرف دکھاوا تھی]۔

[جنرل ضیا نے خود سے خود سے مزہبی جماعتوں کے ساتھ تعلق بڑھا کر ان کو جہاد پر نہیں بھیجا بلکہ انہیں اس بات پر اکسایا گیا تاکہ اتحادیوں کو زمین پر لڑنے والے سپاہی مل سکیں]۔

یہ جہاد 10 سال تک 1989 میں سوویت فوجوں کی شکست تک چلتا رہا، جن کی واپسی بہت عجلت میں ہوئی اور وہ بھاری اسلحے کی ایک بہت بڑي تعداد جس میں ٹینک، توپیں اور ہوائی جہاز تک شامل تھے، مع بڑي مقدار میں گولہ بارود کے ذخیرے اپنے پیچھے چھوڑ گۓ۔ دیوارِ برلن کے گرنے اور سوویت خطرے کے کم ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپ بھی اس علاقے کو اپنے حال پر چھوڑ کر چلے گۓ۔ افغانستان میں اچانک پیدا ہونے والے خلا میں پہلے سوویت یونین کی قائم کی گئ کٹھ پتلی حکومت ختم ہوئی اور اس کے بعد اقتدار کے لۓ جنگجوسرداروي کی کشمکش میں خون خرابہ شروع ہوگیا۔ افغانستان میں 1989 سے 2001 تک بارہ سالہ طویل داخلی جھگڑوں کے سبب بے انتہا تباہی پھیلی۔

[افخانوں کو اسلۓ تنہا چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ آپس میں لڑ لڑ کر ختم ہوجائیں۔ لیکن کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ قوم سخت جان ہے اور اسطرح آسانی سے ختم ہونے والی نہیں]۔

سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے سے لے کر داخلی تشدد کے نتیجے ميں پیدا ہونے والے انتشار کے سہ چند اثرات مرتب ہوۓ۔

اول، اس کی وجہ سے پاکستان ميں 40 لاکھ افغان پناہ گزین آۓ۔

دوم، 1995 میں اس کی بدولت طالبان وجود میں آۓ۔

سوم، اس وجہ سے بین الاقوامی مجاہدین، القاعدہ میں ضم ہوگۓ اور ان کے علاوہ نئ آزاد شدہ وسط ایشیائی جمہوریتوں، کشمکش کا شکار چیچن اور متعدد عرب ملکوں کے لوگ بھی اس میں شامل ہوگۓ۔

[یہ سب مسلمانوں کی آزادی کی تحریکیں تھیں جن کو برداشت نہیں کیا گیا اور انہیں کچلنے کیلۓ ہرطرح کے جتن کۓ گۓ]۔

پھر نائن الیون رونما ہوا، جس کی تباہی نے دنیا بدل دی۔ کولن پاول کے فون اور صدر بش کی تقرير، جس میں انہوں نے کہا کہ خواہ دوسری اقوام ہمارے ساتھ ہوں یا ہمارے خلاف،  سے پہلے ہی میں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ اس وقت بغیر متزلزل ہوۓ، ہمارے لۓ موقع تھا کہ اپنے درمیان سے، اور اپنے قومی مفاد کی خاطر دہشت گردی سے نجات پالیں۔ یہ کام خاموشی سے نہیں ہوسکتا تھا، کیونکہ انتہاپسند پوری طرح مسلح اور کثیر تعداد میں تھے، لیکن امریکیوں کے افغانستان پر غضب ناک حملے کے بعد اور وہاں چھاپہ مار جنگ، اور ختم نہ ہونے والے انتشار کے باعث، القاعدہ کے بہت سے کارکن پاکستان کے مغرب میں واقع پہاڑوں اور شہروں میں متتقل ہوگۓ۔ مجھ پر قاتلانہ حملوں سے پہلے ہمارے حالات مزید خراب ہوگۓ۔

[911 الیون نے جہاں دنیا بدل دی وہاں پرویز صاحب کی قسمت بھی بدل دی لیکن اس کا ذکر پرویز صاحب نے کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ 911 سے پہلے جو پرویز صاحب کو وردی میں ملنا نہیں چاہتے تھے ان کو اپنے گھر بلانے لگے]۔

گویا یہی کافی نہیں تھا کہ 1989 سے مقبوضہ کشمیر میں چلتی ہوئی جدوجہدِ آزادی بھی پاکستانی معاشرے پر گہرے اور وسیع پیمانے پر اثر انداز ہوئی۔ یہ جدوجہد مقامی انتفادہ سے شروع ہوئی تھی۔ جس میں عوام سری نگر کی سڑکوں پر مظاہرے کرتے تھے۔ قانون نافز کرنے والے بھارتی ادارے، آزادی کی اس تحریک کو کچلنے کیلۓ انتہائی بےرحمی سے کام لیتے تھے۔ سری نگر کی وادی میں بہت بڑی تعداد میں اضافی فوجیں لائی گئیں تاکہ اس سیاسی تحریک کو ابتدا ہی میں کچل دیا جاۓ۔ اس کے ردِ عمل میں، تحریک اپنے بچاؤ کے لۓ زیرِ زمین چلی گئ اور اپنے آپ کو مسلح کرلیا۔ اس کے بعد وہ شدت پسند ہوگۓ اور بھارت کی فوجوں کے  خلاف چھاپہ مار جنگ شروع کردی۔ پاکستانی عوام کا اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ جزباتی اور روحانی رشتہ ہے۔ پورے ملک میں ان کی مدد کے لۓ درجنوں تنظیمیں بن گئیں، جو ہندوستانی فوج کے خلاف جہاد میں شرکت کے لۓ تیار تھیں۔

[911 الیون کے بعد بھارت کی قسمت بھی جاگ اٹھی اور پرویز صاحب کو مجبوراً تمام آزادی کی تحریکوں کی حمایت واپس لینی پڑی جس طرح انہوں نے طالبان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ وہی کشمیر کی تحریک جس کی وجہ سے ہم اتراتے اب پاکستان کے اندر دہشت گردی کی ایک وجہ قرار پائی]۔ 

ہماری مغربی سرحدوں پر 26 سال اور مشرق کی طرف کشمیر میں 16 سال سے ہم ہیجان اور کشمکش میں مبتلا ہیں، تشدد، ہتھیاروں اور منشیات کی ثقافت، پاکستان میں پھل پھول رہی ہے۔ القاعدہ کے دہشت گردوں کا انتہائی خطرناک جال ہماے بڑے شہروں میں اور مغربی افغانستان کے ساتھ ہماری سرحد پر قبائلی ایجنسیوں میں پھیل گیا۔ ٹارگٹ کلنگ، دھماکے کرنا، کاربموں اور خود کش حملوں کے رواج نے جڑ پکڑ لی۔ میری اور وزیرِ اعظم شوکت عزیز کی زندگیوں پر حملے اسی داستان کا ایک حصہ ہیں۔۔ یہ وہ حقائق ہیں، جو پاکستان پر گزشتہ 26 برسوں میں گزرے ہیں۔ گو دہشت گردوں کے خلاف ہماری بہت سی کامیابیوں کے بعد اب ان کی شدت ميں کمی ہوچکی ہے، لیکن ہم اب بھی ان پریشانیوں سے گزر رہے ہیں، مجھے یہ سوچ کر پھریری آجاتی ہے کہ اگر ہم یہ فیصلہ نہ کرتے، جو ہم نے کیا تو کیا ہورہا ہوتا۔ علاوہ ازیں، یہ سوچ کر اور بھی دکھ ہوتا ہے کہ مغرب کے چند لوگ ہماری پریشانیاں اور تکالیف سمجھنےاور دہشت گردی کے خلاف عمل میں پاکستان کی معاونت کو اچھی طرح سمجھنے سے قاصر ہیں، اگر ہم سوویت یونین کے خلاف جہاد میں شریک نہ ہوتے اور اگر وہ افغانستان سے واپس نہ جاتے، تو کیا سرد جنگ ابھی تک ختم ہوچکی ہوتی؟ ہم نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے، جو نہ نپولین اور نہ ہٹلر انجام دے سکا۔ ہم نے جہاد میں شریک اپنے دوستوں کی مدد سے روس کو شکست دی۔ اگر آپ پاکستان کو اس تصویر سے نکال دیں تو جہاد ہرگز بھی جیتا نہیں جاسکتا تھا۔ دوسری طرف اگر آپ امریکہ کو نکال لیں تو کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہوتا۔ میں یہ اس وجہ سے کہ رہا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ افغان جہاد میں ہمارا کتنا اہم اور مرکزی کرداد رہا ہے۔ مجھے کچھ تسلی اس وقت ہوئی، جب میں نے ایک تختی پر، جس پر دیوار برلن کا ایک ٹکڑا لگا ہوا تھا اور جسے جرمن خفیہ ادارے کے سربراہ نے پاکستان کے خفیہ ادارے کے سربراہ کو تحفتاً پیش کی تھی، یہ کتبہ پڑھا۔ “اس کے نام، جس نے پہلا وار کیا۔”

[یہ کتبے تبھی تک دیواروں پر لٹکے رہیں گے جب تک اتحادیوں کو ہماری ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہم اسی طرح ڈمپ کردیۓ جائیں گے جس طرح افغانوں کو روس کی شکست کے بعد تنہا چھوڑ دیا گیا۔ ادھر ایک ہم ہیں کہ ہمیں اس دن کی پرواہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس دن کی تیاری کررہے ہیں]۔

اقاعدہ کے پاکستان میں پھیلے ہوۓ جال کو تباہ کرنے میں ہماری بڑی کامیابیاں پاکستانی معاشرے کو پہلے جیسا بنانے کی طرف ایک قدم ہے، لیکن دہشت گردوں کو ابھی مکمل شکست نہیں ہوئی۔ ہمیں اس کا مقابلہ کرتے رہنا چاہۓ اور پاکستان اور اس کے زخم خوردہ معاشرے ميں دوبارہ توازن لانا چاہۓ۔

حقیقتاً ہم پاکستانی مزہبی اور معتدل مزاج لوگ ہیں۔ پاکستن ایک اسلامی مملکت ہے، جو برصغیر کے مسلمانوں کے لۓ وجود میں آئی۔ اس کی آبادی کا ایک بہت چھوٹا حصہ انتہا پسند ہے۔ یہ انتہا پسند، مزہب کے بارے میں سخت بنیادی اور بے لچک، بلکہ جاہلانہ اور متعصب خيالات رکھتے ہیں۔ مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب وہ اپنے غیرلچک دار قدیمی خیالات دوسروں پر تھوپنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف تشدد پسند اور جارجانہ انداز رکھتے ہیں، بلکہ دہشت گردی کے لۓ بھی آمادہ کۓ جاسکتے ہیں۔

[ ایک مکمل مسلمان جو اسلام پر سختی اور کسی لچک کے بغیر عمل کرتا ہے کو جاہل اور انتہاپسند کہنا زیادتی ہے۔ یہی مسلمان کرپٹ معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگر اس پر اعتماد کیا جاۓ]۔

اس قلیل انتہا پسند عنصر کے علاوہ معتدل اکثریت تین حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ ایک طرف نیم ملا ہیں، جو اسلام کو قدامت پسندانہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگ ہیں، جو مزہب کے اصل معني اور معاشرے میں اس کی اقدار اور ذمہ داریوں کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ، تین شہری اور دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی وہ اکثریت ہے، جو کم تعلیم یافتہ ہے، وہ بھی معتدل مزاج ہیں اور جیو اور جینے دو کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ شوق سے صوفی بزرگوں کے مزاروں پر جاتے اور بے خود کردینے والا عارفانہ کلام سنتے ہیںلیکن جہالت، غربت اور مایوسی کی وجہ سے انتہا پسند انہیں گھیر لیتے ہیں اور اکثر کامیاب ہوجاتے ہیں، خصوصاً جب نيم ملا بھی انہیں گمراہ کرنے میں کردار ادا کررہے ہوں۔

علاوہ ازیں، ہمارے درمیان ایسے انتہاپسند بھی ہیں جو نہ تو غریب ہیں اور نہ غیر تعلیم یافتہ۔ وہ کیوں اس طرف مائل ہوتے ہيں؟ میرا خیال ہے کہ ان کا مسلمانوں کی حالتِ زار پر شدید ردِ عمل یعنی سیاسی ناانصافیاں، معاشرتی محرومیاں اور دوسرے معاشروں سے کمتري کا احساس، اس راستے پر ڈال دیتا ہے۔ یہ وجوہات ایسے لوگوں کے لۓ بھی ہوسکتی ہیں، جیسے اسامہ بن لادن، ڈاکٹر ایمن الزواہری، خالد شیخ محمد اور عمر سعید شیخ۔ یہ سب کے سب مالدار اور تعلیم یافتہ ہیں جن میں سے دو نے برطانیہ اور امریکہ کے سکول اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی اور ایک کی پیدائش برطانیہ میں ہوئی۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ لندن کی 7/7 کی بمباری میں ملوث دہشت گرد اسی طبققے سے تھے۔ افسوس کا مقام ہے کہ روشن خیال طبقے نے عوام کی اکثریت کو سچا اسلام سکھانے کی ذمہ داری چھوڑ دی ہے اور انہیں نیم ملاؤں کے سپرد کردیا ہے۔ اس روشن خیال طبقے کے لوگ اپنی اولاد کو دنیا کا ہرمضمون پڑھاتے یا پڑھواتے ہیں، لیکن جب مزہب کی باری آتی ہے تو یہ اہم ذمہ داری اپنے پڑوس میں واقع مسجد کے ملا کو سونپ دیتے ہیں۔ تعلیم یافتہ طبقے نے مزہبی بحثوں میں شمولیت کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ انہوں نے نہ تو 911 کی اور، نہ ہی مسلم دنیا پر اس کے اثرات کی کوئی پیشگوئی کی۔ اب انہیں ایک بڑي تباہی کا سامنا ہے۔

[پرویز صاحب نے بھی اپنی اولاد کو یورپین تعلیم دلوائی اور انہیں اسلام کی تعلیم سے دور رکھا۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ روشن خیالوں نے اسلام کی بہتری کیلۓ کوئی اقدامات نہیں کۓ اور اپنی اولاوں کو دین کی تعلیم کیلۓ مسجد کے مولویوں کے حوالے کردیا۔ لیکن پرویز صاحب نے خود بھی یہی کچھ کیا]۔

آج درمیانی طبقہ، جن کی بہت بڑی اکثریت ہے، اس الجھن میں حيں کہ عمومی طور پر دنیا کے سامنے اور خصوصاً مسلم دنیا کے سامنے، جو اہم معاملات درپیش ہیں، ان پر اسلام کے کیا خیالات ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں ملاؤں کے جاہلانہ خیالات سے دور رکھا جاۓ اور اسلام کے روشن، ترقی پسند اور متوازن پیغام کی طرف لایا جاۓ۔ بلاشبہ یہ ایک سخت امتحان ہے، لیکن اس میں کامیابی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔

[ یہی پرویز صاحب کی حکومت کا ٹارگٹ ہے کہ پاکستان کی ترکی کی طرح سیکولر بنادیا جاۓ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جب تک پاکستان ترکی نہیں بن جاتا پرویز صاحب کی نوکری پکی ہے]۔

جیسا کہ میں پہلے کہ چکا ہوں، ہمارے تجربے نے بتایا ہے کہ پاکستان میںدہشت گردی کے واقعات کی تخلیق اور ہدایت کاری ہمیشہ القاعدہ کے غیر ملکی اراکین نے کی ہے۔ یہ ہدایت کار، مقامی منصوبہ ساز ڈھونڈ لیتے  ہیں۔ یہ منصوبہ ساز یا انتہا پسند مزہبی تنظیموں میں گھس جاتے ہیںیا کسی بھی دہشت گردی کی کاروائی کے لۓ چھانٹے ہوۓ افراد کی آمیزش کرکے انہیں ذہنی چور پر دشت گردی کی وارداتوں کے لۓ تیار کرتے ہیں۔ یہ حملہ آور اس کھیل میں صرف پیادے ہوتے ہیں، نہ ہی ان کے پیشِ نظر ہمیشہ مزہبی مقاصد ہوتے ہیں، لیکن پاکستان میں اس طرح دہشت گردی کی آمیزش مزہب کے ساتھ ہوگئ ہے۔

اگر میں دہشت گردوں کے درجات کا ایک درخت کے ساتھ موازنہ کروں تو میں حملہ آوروں کو صرف اس درخت کی پتیاں کہوں گا۔ جب تک درخت ہرا بھرا ہے، پتیوں کی تعداد زیادہ ہوتی رہے گی۔ پوری القاعدہ کی تنظیم کو مع ہدایت کاروں اور منصوبہ سازوں کے، میں درخت کی ایک شاخ سے تشبیہ دوں گا۔ القاعدہ کو ختم کرکے ہم پیڑ کی صرف ایک شاخ کاٹیں گے، اگرچہ یہ ایک بڑی شاخ ہے۔ جب تک اس کی جڑیں سالم رہیں گی، دہشت گردی کا درخت پھلتا پھولتا رہے گا۔ ایک انسان دوسرے معصوم انسانوں کی جان کیوں لیتا ہے؟ ایسی کیا چیز ہے، جو ایک انسان کو مجبور کرتی ہے کہ اپنی جان دے کر دوسروں کی جان لے؟ یقیناً یہ ایک بہت طاقتور خواہش ہوگی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایک آدمی کو اس کی آخری حد تک لے جانے کا ایک عنصر سیاسی محرومیوں کی وجہ سے ناامیدی، محکومیت اور ناانصافی کا احساس ہے۔ یہی دہشت گردی کے درخت کی جڑیں ہیں۔ درخت ک جڑوں اور شاخوں کو تباہ کرنا ضروری ہے لیکن یہ تب ہی تباہ ہوگا، جب اسے پہلے جڑ سے اکھاڑ لیا جاۓ۔ ایسا کرنے کا واحد طریقہ ناانصافی اور سیاسی محرومیوں کو ختم کرنا ہے۔ اگر درخت کی جڑیں تباہ نہیں کی گئیں تو محکومیت کا احساس اور اس کے بعد ناامیدی دوبارہ پیدا ہوجاۓ گی۔ جڑیں ہی اصل وجہ ہیں، جو بالآخر دہشت گردی کے درخت میں بدل جاتی ہیں۔

[پرویز صاحب اسی لۓ باوردی ڈکٹیٹرشپ کے ذریعے درخت کے تنے اور جڑوں کی حفاظت کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ تو لوگوں کی محرومیوں کو ختم کررہے ہیں اور نہ ہی مکمل جمہوریت بحال کررہے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اور صرف اپنی کرسی کی دیکھ بھال ہے نہ کہ پاکستانی معاشرے کی بہتری]۔ 

ایسا احساس جب جہالت اور غربت سے جا ملتا ہے تو ایک دھماکا خیز مواد تیار ہوجاتاہے۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں مسلمان تکالیف اٹھا رہے ہیں اور آگے انہیں کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔ اس قسم کے خیالات رکھنے والا ایک آدمی، جو اتنا جاہل ہو کہ اپنے گلے میں لٹکی ہوئی چابی کو سمجھے کہ جنت کی چابی ہے [خود کش حملہ آور اس قسم کی باتوں پر یقین رکھتے یں] اور انتہائی غربت کی زندگی گزار رہا ہو، جس میں اسے آگے کچھ نظر ہی نہ آتا ہو تو وہ دہشت گردی کرنے والوں کا آسان شکار ہے۔ اسے سمجھایا جاتاہے کہ کیوں نہ سیاسی مقصد کے لۓ کچھ کام کرے اور اس کی تکمیل کرکے اس تکلیف دہ دنیا سے کہیں زیادہ مسرت اور فراوانی کی جنت میں چلا جاۓ۔

[پرویز صاحب نے دہشتگردی کی اصل وجہ تو معلوم کرلی ہے مگر اس کے تدارک کیلۓ ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ نہ ہی ملک سے غربت کم کی ہے اورنہ ہی لوگوں کے مسائل کی طرف توجہ دی ہے۔ بلکہ ابھی تک تو انہوں وہ اسباب مہیا کۓ ہیں جن کی وجہ سے دولت کا بہاؤ عام پبلک سے امرا کی طرف رہا ہے]۔

لندن میں7/7 کي بمباری میں ملوث لڑکے نہ تو سیاسی طور پر محرومی کا شکار تھے اور نہ غیر تعلیم یافتہ اور نہ غریب۔ ظاہر ہے کہ ان کا عزم اور ارادہ، ان کی برادری کی معاشرتی اور اقتصادی محرومی کی وجہ سے پیدا ہوا۔ جس معاشرے میں وہ رہتے تھے، اس ميں ذم نہ ہوسکنا، غیر متوازن برتاؤ کا سامنا اور اپنے ہم مزہبوں پر ظلم ہوتے ہوۓ دیکھنا۔ ایسی وجوہات ہوسکتی ہیں، جنہوں نے انہیں دہشت گردی کی طرف مائل کیا۔

آج کے دور میں ان تمام حقائق کی اچھی طرح جانچ پڑتال ہونی چاہۓ۔ ہمیں اسے سمجھنے کےلۓ حکمتِ عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ میں دہشت گردوں کے خلاف علیحدہ علیحدہ کم مدت اور زیادہ مدت کی حکمت عملیوں کر ترجیح دیتا ہوں۔

کم مدت میں دہشت گردوں کے خلاف ہمیں پوری طاقت سے مقابلہ کرنا چاہۓ۔ ان کا بنیادی ڈھانچہ ختم کردینا چاہۓ لیکن یہ دہشتگردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لۓ کافی نہیں ہے۔ دہشت گردی سے متعلق معاملات سے تین سطحوں پر نمٹنا ضروری ہے۔ یين الاقوامی برادری، مسلم دنیا اور ہر ملک کے اپنے خصوصی ماحول کے مطابق اس کی اندرونی صورتِ حال۔

[جب پرویز صاحب ملک کے اندر خصوصی حالات کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ پاکستان مکمل جمہوریت کے قابل نہیں ہے اور اسلۓ مغرب کو پاکستان میں مکمل جمہوریت کی رٹ چھوڑ دینی چاہۓ]۔

عالمی طور پر ہمیں سیاسی جھگڑے ختم کرنے چاہئیں اور دنیاۓ اسلام میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو رد کرکے معاشرتی اور اقتصادی ترقی پر زور دینا چاہۓ۔ داخلی طور پر میں اپنے خیالات کو پاکستان کی حد تک محدود رکھوں گا۔ اس ميںکوئی شک نہیں کہ ہمیں دہشت گردی کے خلاف پوری طاقت سے اس وقت تک جنگ لڑنی ہے، جب تک ہم اسے اپنے اندر موجود جڑ سے ختم نہیں کرلیتے۔ پاکستان میں ہماری حکمتِ عملی یہ ہے کہ اس کے اعلیٰ سطح کے مفکروں، ہدایت کاروں اور منصوبہ سازوں پر بھرپور وار کۓ جائیں۔ یہ حکمتِ عملی ہمارے ملک میں دہشت گردی کی کمر توڑنے میں انتہائی کامیاب ثابت ہوئی ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہمیں دہشت گردوں پر دباؤ قائم کرنا ہے لیکن حقیقی اور مکمل کامیابی اس وقت حاصل ہوگی، جب دہشت گردی کو پروان چڑھانے والی جڑوں کو ختم کردیا جاۓ گا، جونہی جب مسلمانوں کے ساتھ ہونے والي ناانصافیاں رک جائی گی، اس کی ذمہ داری اور محاط رہنے کی ضرورت۔ اس کے لۓ مزہبی اور فرقہ وارانہ انتہاپسندی، دونوں کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ یہ دل و دماغ جیتنے کا معرکہ ہوگا۔ لوگوں کی سوچ کو زبردستی نہیں بدلا جاسکتا۔ انہیں بہتر دلائل اورعمل سے قائل کرنا ہے۔ ہمیں یہ تبدیلی لانے میں ہرطرح کی مدد کرنی ہے۔ اس میں خاموش اور میانہ رو اکثریت کو اپنا کردار ادا کرنے کیلۓ میدان میں لانا ہے۔ ہم نے مندرجہ ذيل معاملات کی طرف توجہ دی ہے اور امید ہے کہ ان کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے۔

ہم نے تمام انتہاپسند تنظیموں پر پابندی لگا کر ان کے مالی وسائل تک رسائی بھی بند کردی ہے اور ان پر کڑی نگاہ رکھ رہے ہیں کہ وہ لبادہ بدل کر کسی اور نام سے منظم نہ ہو جائیں۔ اس مہم کو جاری رکھنا ضروری ہے۔ ہم نے نفرت پھیلانے والے اخباروں، رسالوں ، کتابوں، اشتہاروں اور دوسرےایسے ہی مواد کے لکھنے اور طباعت و اشاعت اور فروخت پر پابندی لگا دی ہے۔

[پرویز صاحب کو مجبوراً فرقہ وارانہ تنظیموں پر پابندی لگانا پڑی جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ وارداتوں میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی کا ثمر ہے کہ آج مجلسِ عمل میں سنی، وہابی اور شیعہ ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھے جدوجہد کررہے ہیں]۔

ہم نے سکولوں کے نصابِ تعلیم میں ترمیم کرکے اس میں سے مزہبی اور فرقہ وارانہ نفرت اور اشتعال پھیلانے والے مواد کو خارج کرکے اسے اسلام کی اصل اقتدار اور معانی سکھانے والے مواد سے تبدیل کردیا ہے، جس کا مقصد معاشرے اور خود انسانوں کو دقیانوسی بندشوں سے آزاد کرنا ہے۔

[ دراصل پرویز صاحب کو کھل کربتانا چاہۓ تھا کہ نصاب سے جہاد کے مضامین ختم کردیۓ گۓ ہیں اور مسلمانوں کو سیکولر بنانے کیلۓ تعلیمی نصاب پر زوروشور سے کام جاری ہے]۔

ہم نے مساجد میں لاؤڈ سپیکروں کا غلط استعمال بند کیا، جن سے نفرت اور انتشار پھیلایا جاتا تھا۔

[یہ کام بھی پرویز صاحب نے مجبوراِ کیا وگرنہ ہمارے دشمن تو کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ مسلمان میں اتفاق پیدا ہو]۔

ہم نے مدرسوں میں مزہب کے علاوہ دوسرے سکولوں کی طرف دنیاوی مضامین کی تعلیم دینے پر زور دیا اور انہیں تعلیمی بورڈز کے امتحانات میں حصہ لینے کی ترغیب دی تاکہ ان کے طالبعلم ملا یا عالم بننے کے علاوہ عام تعلیمي اداروں کے طلبا کی طرح دوسرے پیشوں میں بھی داخل ہوسکیں۔

آخر میں ہم نے روشن خیال مفکروں اور علما کے ساتھ قومی سطح پر اسلام کے بارے میں بات چیت کا آغاز کیا ہے تاکہ عوام کی سوچ صحیح سمت کی طرف مائل کی جاسکے۔ یہ مسلمانوں کی نشات ثانیہ ہوسکتی ہے اس کا نقطہء آغاز پاکستان سے ہوسکتا ہے۔

[غیروں کا یہی پلان ہے کہ مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ اس طرح ترتیب دی جاۓ کہ ان کو اپنے استحصال کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے کی پرواہ ہی نہ رہے]۔

اکثر مسلم ممالک میں معاشرتی، ذہنی اور جزباتی ہم آہنگی ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے تجربات سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ہمیں ابھی بہت محنت کرنی ہے لیکن کامیابی تب ہی حاصل ہوگی، جب ہم اپنے مقصد کے حصول کی طرف متوجہ اور ثابت قدم رہیں گے۔