پی پی پی کے رکن اسمبلی جمشید دستی سپریم کورٹ میں اپنا جعلی ڈگری کا مقدمہ ہارنے کے ڈر سے مستعفی ہو گئے۔ ڈگری بھی انہوں نے اسلامیات کی لی جس کے نصاب کی الف ب سے بھی وہ واقف نہیں تھے۔ مقدمے کے دوران وہ اتنا بھی نہ بتا سکے کہ ایم اے کی ڈگری کا دورانیہ کتنا ہوتا ہے۔ نہ قرآن کی صورتوں کے نام بتا سکے اور نہ ریاضی کے پہاڑے۔ یہ تو ایسے سوالات تھے جن کے جوابات ایک مسلمان آسانی سے دے سکتا تھا۔

ویسے یہ ڈرامہ اگر ٹی وی پر دکھایا جاتا تو بہت سے لوگ مزہ بھی لیتے اور جناب دستی صاحب قومی سطح پر عبرت کا نشان بھی بنتے۔ پتہ نہیں ایسے مقدمے کھلی عدالتوں میں کیوں نہیں چلائے جاتے اور ویڈیو بنانے پر کیوں پابندی ہوتی ہے۔ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ کل قومی اخبارات اس خبر کو امریکہ کیساتھ ہونے والے سٹریٹجک مذاکرات کی خبر کے برابر جگہ دیں گے۔

ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ غریب آدمی اگر جرم کرے تو سپریم کورٹ اس کی پھانسی کی سزا بھی معاف نہیں کرتی اور اگر ایک قومی نمائندہ جرم کرے تو اس سے استعفٰی لے کر سمجھا جاتا ہے انصاف ہو گیا۔ ایسے شخص کو تو جعلی ڈگری کے جرم میں عمرقید کی سزا دے کر دوسروں کیلیے عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے تھا۔ کم از کم اس مجرم کو اتنے دن تو جیل میں رکھنا چاہیے تھا جتنے دن وہ جعلی ڈگری کے سہارے قومی اسمبلی کی رکنیت کے مزے لوٹتے رہے۔

انجنیئرنگ میں اگر کسی ایک مشین میں نقص پیدا ہو جائے اور اس کا تدارک ڈھونڈ لیا جائے تو وہ حل دوسری مشینوں پر بھی لاگو کر دیا جاتا ہے تا کہ ایسا نقص ان میں پیدا نہ ہونے پائے۔ یہ اصول جرائم کی دنیا میں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ ہماری طالبعلمی کے زمانے میں جب دو طلبا کی انٹر کی ڈگریاں جعلی نکلیں تو بعد میں یونیورسٹی انتظامیہ نے تمام طلبا کی ڈگریاں چیک کرائیں۔ یہی کچھ اسمبلی ارکان کیساتھ ہونا چاہیے تھا۔ جب دو چار ارکانِ اسمبلی کی ڈگریاں جعلی نکلیں تو پھر تمام ارکانِ اسمبلی کی ڈگریاں چیک کروانی چاہئیں تھیں بلکہ حکومت کو قانون سازی کرنی چاہیے تھی  تا کہ گند ایک ہی دفعہ صاف ہو جاتا۔

ہماری تنزلی کا اس حدیث سے گہرا تعلق ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ وہ قومیں برباد ہو گئیں جن کے قوانین امیر اور غریب کیلیے الگ الگ ہوتے تھے۔