روشن پاکستان

یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ بیرونِ ملک پاکستان کا تاثر اتنا خراب ہوچکا ہے کہ دنیا اب اسے صرف دہشت گردی اور انتہاپسندی کے حوالے سے جانتی ہے۔ بہت سے لوگ ہمارے معاشرے کو صرف ایک متعصب اور غیرترقی پسند معاشرہ سمجھتے ہیں۔ ہم کتنا ہی کہیں کہ پاکستانیوں کی بہت بڑی اکثریت اعتدال پسند ہے اور صرف ایک غیر اہم، چھوٹا سا عنصر انتہا پسند ہے یہ کہ ہمارے قومی مزاج کو مغرب میں افغانستان اور مشرق میں کشمیر کے ہنگامہ خیز تلاطم سے بے انتہا نقصان پہنچا ہے۔ نہ کہ ہمارے معاشرے یا ہمارے ملک کی حدود کے اندرونی حالات سے، لیکن اس پیغام کو بیرونی دنیا میں کوئی سجمھتا ہی نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ میں انے پاکستان کی زیادہ سچی تصویر، جسے ميں روشن خیال تصویر کہتا ہوں ، سیاست، کھیل اور تمدن کے فروغ کے ذریعے پھیلانے کی کوشش کی ہے۔

[پتہ نہیں پرویز صاحب دہشت گردی کیساتھھ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو کیوں شامل کررہےہیں۔ یہ دوسری دفعہ ہے کہ انہوں نے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو بھی پاکستان کے اندر دہشت گردی کی وجہ قرار دیا ہے۔ کیا اسطرح وہ کشمیر کی تحریک کو دہشت گردی کی تحریک قرار دے کر اسے نقصان نہیں پہنچا رہے؟]۔

ہمارے یہاں غالباً دنیا کے پہاڑوں میں سے بہترین اور چند بلند ترین پہاڑی سلسلے، خوبصورت سمندری ساحل جو جنوب میں ہیں، عظیم دریا، بے آب و گیاہ ریگستان، گھنے جنگل اور بدھوں، ہندوؤن اور سکھوں کے مزہبی مقامات ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سی ایسی مزہبی و تاریخي عمارتیں، آثار اور عجائب گھر ہیں، جن کا تعلق زمانۂ قدیم سے ہے۔ اس کے باوجود ہمارے یہاں بمشکل ہی سیاحت ہوتی ہے۔ یہ کتنی افسوسناک بات ہے۔ 911 سے پہلے بھی ہم اپنے آپ کو موٓثر طریقے سے دنیا میں روشناس کرانے میں ناکام رہے۔ علاوہ ازیں، ہم اس قسم کی سہولتیں اور مراکز مہیا کرنے میں بھی ناکام رہے، جو سیاحت کے فروغ کے لۓ ضروری ہیں۔ اب تو ہماری انتہاپسند ملک ہونے کی شہرت اور دوسرے ممالک کی اپنے باشندوں کو پاکستان کا سفر نہ کرنے کی ہدایات سیاحت کے فروغ میں رکاوٹ ہیں۔ مجھے اپنی  کمزوریوں کا احساس ہے۔ ہم نے اپنا ٹیلی فون نیٹ ورک بہتر کرلیا ہے اور مشرق میں کراچی سے لے کر مغرب میں گوادر تک، جو ہماری نئ بندرگاہ ہے، سمندر کے کنارے کنارے پھیلی ہوئی ایک خوبصورت سڑک مکمل کرلی ہے۔ یہ سڑک بہت سے چھوٹے بڑے ساحلی شہروں اور اس کے راستے میں آنے والے خوبصورت مقامات کو ایک دوسرے سے ملاتی ہے۔ ہم نے اپنے کوہستانی شمالی علاقہ جات میں تمام بڑی وادیوں یعنی چترال، کاغان، گلگت، ہنزہ اور سکردو کو آپس میں ملا دیا ہے۔ اس سڑک کے ذریعے سیاحوں کا ایک وادی سے دوسری وادی میں جانا بہت آسان ہوگیا ہے اور اب انہیں ہر مرتبہ ہوائی اڈے سے واپس آنا جانا نہیں پڑتا۔ ہم اب مقامی اور غیرملکی سیاحوں کو قائل کرنے کے لۓ اپنی سیاحتی استعداد کو شہرت دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سے دوسری ضروریات، خصوصاً ہوٹل اور موٹل بنانے کی حوصلہ افزائی ہوگی اور غیرملکی سیاح زیادہ بڑی تعداد میں پاکستان کی طرف راغب ہوسکیں گے۔

میں ایک کھلاڑي رہا ہوں، لیکن کیس بھی کھیل میں ماہر نہیں ہوں۔ پاکستان اپنی تاریخ کے مختلف وقتوں میں اچھا خاصا کھیلوں کا دلدادہ ملک رہا ہے۔ ہم کرکٹ، ہاکی، اسکوائش، حتیٰ کہ برج اور غیرپیشہ وارانہ بلیٰرڈ اور سنوکر تک میں، عالمی سطح کے کھلاڑی رہے ہیں۔ ضیاء محمود، جو بلاشبہ دنیا میں برج کے بہترین کھلاڑي ہیں، پاکستانی ہیں۔ ہاشم خان، جہانگیر خان اور جان شیر خان دنیا میں اسکوائش کے بہتیرین کھلاڑیوں میں رہے ہیں اور ان تینوں میں جہانگیر بہترین ہیں۔ اگر ہالی وڈ کو ان کے غم، حوصلے اور عزم کی کہانی معلوم ہو جاۓ تو وہ چیریٹس آف فائر کی طرح کی ایک اور فلم بنا دیں گے۔ ہم میں سے جو بھی ان سے شناسا ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کے بہترین اتھلیٹ ہیں۔ ہم اعلیٰ سطحی ایشیائی اتھلیٹک کھیلوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ کھیل کود کے ذریعے ایسی تفریح مہیا کرسکتے ہیں، جو سماجی سختیوں کا دباؤ زائل کرنے کا وسیلہ بنتی ہے۔ 1999 میں ہماری کھیلوں کی کارکردگی بہت نچلی سطح پر تھی۔ اس وجہ سے میں نے کھیلوں سے متعلق صورتِ حال بہتر بنانے کے لۓ ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔

[پرویز صاحب نے خاص کر برج کے عالمی کھلاڑی کا خاص طور پر ذکر کرکے قوم کو تاش کھیلنے کی ترغیب دے کر قوم کی کوئی خدمت نہیں کی۔ انہیں چاہۓ تھا کہ سکواش کی طرح ایسے دوسرے کھیلوں کا ذکر کرتے جن سے قوم میں چستی اور توانائی پیدا ہوتی۔

ویسے حقیقت یہی ہے کہ کھیلوں کے معیار میں 1999 کے بعد سے کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ تنزلی ہی ہوئی ہے اور اس طرح پرویز صاحب نے کھیلوں کی بہتری کے اب تک جو بھی اقدامات کۓ ہیں وہ ناکام ہی ہوۓ ہیں۔ پرویز صاحب کو چاہۓ تھا کہ وہ چھھ سال بعد کھیلوں کے معیار کی گراوٹ کا دوبارہ جائزہ لیتے اور اس کے ذمہ داروں کی کھچائی کرتے۔

پتہ نہیں پرویز صاحب نے یہاں پر پاکستان میں میراتھان کی دوڑ کا ذکر کیوں نہیں کیا جو پچھلے سال لاہور میں ہوئی تھی۔ کیونکہ اس میراتھان کے ذکر سے پرویز صاحب اپنے روشن خیالی کے امیج کو بہتر بناسکتے تھے]۔

سب سے پہلے ہم نے کھلیوں کے اداروں کی ، جو بے ایمانی اور یار دوستوں کو نوازنے کے مراکز بن گۓ تھے، تنظیمِ نو کی۔ اس طرح ہم نے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، پاکستان سپورٹس بورڈ اور دوسرے کھیلوں کے اداروں کی تنظیمِ نو کی تاکہ ان میں اعلیٰ معیار اوربہتر کارکردگی متعارف کرائی جاۓ۔ اس کے بعد ہم نے ایک حکمتِ عملی کے تحت پورے ملک کے لۓ مقابلوں پر مبنی کھیلوں کا ایک دلچسپ اور تین سطحی نظام ترتیب دینے میں مدد کی۔ اس میں سکولوں اور کالجوں کے مابین مقابلے، علاقائی اور ضلعی سطحوں پر اور پبلک اور کارپوریشن کی سطح پر مقابلے منعقد کراۓ۔ ہم کوشش کررہے ہیں اور نچی شعبے کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں کہ وہ کھیلوں کی ٹیمیں اور کھیل منعقد کرانے کی سرپرستی کریں۔ اس طرح ہمیں امید ہے کہ ملک بھر سے اچھے کھلاڑی میدان میں آئیں گے اور لوگ کھیلوں سے مانوس ہوں گے۔ اس سے قومی سطح پر ہمارے کھیلوں کا معیار بڑھے گا ور تفریح کے بھوکے عوام کو دلچسپی کے مواقع بھی فراہم ہوں گے۔

[ان سارے اقدامات کے ثمرات چھھ سال میں تو ظاہر نہیں ہوۓ پتہ نہیں کب عوام کو پرویز صاحب کی اصلاحات کے فوائد حاصل ہوں گے۔ ہمیں تو ناکامی کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ اب بھی کھیلوں میں اقربا پروری کا دور دورہ ہے۔ اس کی تازہ مثال پرویز صاحب کے قریبی دوست ڈاکٹر نسیم اشرف جو امریکہ پلٹ ڈاکٹر ہیں کی کرکٹ بورڈ میں بطورِ چئیرمین تعینانی ہے۔ پرویز صاحب اگر کرکٹ پر احسان کرنا چاہتے تو کسی پروفیشنل کو چئیرمین بناتے نہ کہ اپنے دوست کو]۔

دنیا میں کم لوگوں کو معلوم ہے کہ پاکستان رنگارنگ معاشرتی ورثوں سے مالامال ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً قبل از تاریخ کے موہنجودڑو اور ہڑپہ کے آثار، مہرگڑھ کی تہزیب، سکندرِ اعظم اور انگریزوں کے راج کی تاریخ موجود ہے۔ سکندر اور انگریز، دونوں نے ہمارے ملک پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ دور دراز واقع چترال کی وادی کیلاش میں رہنے والے کیلاش قبیلے کے لوگوں کا سلسلۂ نسب سکندر کی فوج سے ملتاہے۔ جو وہاں سے واپس گئ تھی مگر اس کا ایک حصہ وہیں قیام پزیر ہوگیا تھا۔ ہمارے علاقے مغل دور کی یادگاروں، مسلمان صوفیاۓ کرام کی خانقاہوں اور انگریز کے سامراجی دور کی یادگاروں سے بھرے پڑے ہیں۔ ٹيکسلا، صوابی اور سوات میں بدھوں کے، کٹاس راج میں ہندوؤں کے، حسن ابدال اور ننکانہ صاحب میں سکھوں کے مقدس مقامات ہمارے ورثے کے پس منظرمیں اور رنگ بھرتے ہیں۔ جب آپ ہماری سرزمین پر چلتے ہیں تو تاریخ کے ساتھھ ساتھھ چلتے ہیں۔ ہر پتھر، گلی، کوچے اور ہر کونے، حتیٰ کہ ہمارے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش جیسے عظیم کوہستانی سلسلوں کی ہرچوٹی کی کوئی نہ کوئی کہانی ہے۔

پاکستان کے چاروں صوبے اپنے اپنے مخصوص تہزیب و تمدن کے گہوارے ہیں۔ موسیقی، رقص اور فنونِ لطیفہ ہمارے میں ہزاروں سال سے پھل پھول رہے ہیں۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ یہ پاکستان کا انتہائی ڈھکا چھپا راز رہا ہے۔ اس سے بدتر یہ کہ مزہبی انتہا پسند اور غیرترقی پسند قومیں ان ثقافتی سرگرمیوں کو غیراسلامی کہتی ہیں۔ ماضی کی حکومتوں میں کسی کو یہ جرآت نہیں تھی کہ انہیں بتائیں کہ غلط ہیں۔

[پرویز صاحب نے اپنے آقاؤں کے ایجنیڈے کو عملی جامہ پہنانے کیلۓ موسیقی، فنِ رقص اور فنونِ لطیفہ کو اس طرح رواج دیا ہے کہ بے حیائی عام ہوئی ہے۔ صدر صاحب نے خود بھی کئ مواقع پر فنکاروں کیساتھ ملکر ڈانس کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ابھی تک انہوں نے نہ تو کوئی قرأت کانفرنس کروائی اور نہ ہی دینی شعار کو عام کرنے کیلۓ کچھ کیا۔ اب تو پنجاب یونیورسٹي میں موسیقی میں ڈگری کورس شروع کردیا گیا ہے اور کئی جگہوں پر اکیڈمی بھی بنا دی ہیں۔ ہم نہیں کہتے کہ موسیقی اور فنونِ لطیفہ ہونے ہی نہیں چاہۓ۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ سب تہزیب کے دائرے میں رہیں اور ان کیساتھ ساتھ قوم کو دینی تعلیم سے بھی آراستہ کیا جاۓ]۔

ان سب کو ایک بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت تھی۔ ہمیں اپنی قومی زندگی میں تمدنی، یک جہتی اور معمول کی سرگرمیاں واپس لانی تھیں۔ میں نے پاکستان کی ثقافت کو فروغ دنیا شروع کیا۔ میں نےفوج کو حکم دیا کہ وہ کراچی میں قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کی ایسی تزئین و آرائش کریں، جو باباۓ قوم کے شایانِ شان، اظہارِ عقیدت کی مظہر ہو۔ آج ہزاروں لوگ وہاں جا کر اس کے گردوپیش کی جوبصورتی کو سراہتے ہیں۔

[فوج کو تزئین کا کام دینے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ کام ہمارا محکمہ تعمیرات بھی انجام دےسکتا تھا]۔

ہم نے اسلام آباد میں ایک عالی شان قومی یادگار، پاکستان کے عوام کے نام، تعمیر کی ہے۔ اس میں ایک زیرِ زمین عجائب گھر ہے، جو تحریکِ پاکستان کی یادگاروں پر مشتمل ہے۔ ایک اور شاندار یادگار، والنٹن، لاہور میں جس کا نام بابِ پاکستان رکھا گیا ہے، خاص اسی جگہ زیرِ تعمیر ہے، جہاں قائداعظم نے ان ایک لاکھھ مہاجرین سے، جو بھارت سے نقل مقانی کرکے آۓ تھے، خطاب کیا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے ایک برعزم منصوبے کے تحت اسلام آباد میں قومی ورثہ عجائب گھر شروع کیا، جو پاکستان کی علاقئی ثقافت اور رسم و رواج کی عکاسی کرے گا۔ یہ منصوبہ عکسی مفتی کی زیرِ نگرانی پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ عکسی مفتی ہمارے فنونِ لطیفہ اور ثقافت سے دل و جان سے وابستہ ہیں اور انہوں نے اس منصوبے پر مثالی کام کیا ہے۔ یہ  عجائب گھر اب بہت سے مقامی اور غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔

[تاریخ بتاتی ہےکہ اسطرح کی یادگاریں ہمیشہ مطلق العنان حکمرانوں نے بنا کر قوم کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ کسی نے تاج محل بنوایا، تو کسی نے شاہی مسجد، کسی نے فیصل مسجد بنوائی تو کسی نے بابِ پاکستان۔ جب قومی اکثریت مفلسی کی زندگی گزار رہی ہو تو پھر اس طرح کے نمائشی اخراجات سے پرہیز کرنا چاہۓ۔ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ اگر آپ عمرہ پر جارہے اور آپ کا پڑوسی تنگ دستی کا شکار ہے تو عمرے کا ارادہ ترک کرکے اسی رقم سے اپنے پڑوسی کی غربت میں کمی کی کوشش کیجۓ]۔ 

میں نے فنونِ لطیفہ کے میدان میں موسیقی، ڈرامہ اور رقص کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہم نے کراچی میں ایک نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کھولی ہے، جو تھیٹر کے معروف فنکار ضیاء محی الدین کی زیرِ نگرانی چل رہی ہے۔ ہم نے اسلام آباد میں نیشنل کونسل آف آرٹس قائم کی ہے، جس میں ایک آرٹ گیلری ہھی ہے۔ دونوں ادارے نوجوانوں کے فنونِ لطیفہ کی طرف راغب کررہے ہیں، خصوصاً موسیقی کی طرف۔

[ اچھا ہوتا اس اکیڈمی کی بجاۓ پرویز صاحب جامعہ الاظہر کی تقلید کرتے ہوۓ پاکستان میں کسی اسلامی یونیورسٹی بنا دیتے]۔

آخر میں، جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کو آزاد کرنے کی حکمتِ عملی کے بعد بہت سے نجی ٹیلی ویڎن چینلز کھل گۓ ہیں۔ ہمیں دنیا کے سامنے اپنی تصویر بہتر بنانے کے لۓ تمام محاذوں پر آگے بڑھنا چاہۓ۔ ہمیں دہشت گردی اور انتہاپسندی کو شکست دینی ہے، لیکن ساتھھ ہی ساتھھ اس کی جگہ ہمیں ایک اچھا ثقافتی، پرکشش اور اقتصادی طور پر متحرک متبادل بھی پیش کرنا ہے۔ پاکستان کو بیرونی ممالک میں پزیرائی دلانے کے لۓ ذرائع ابلاغ کو کمر کس لینی چاہۓ۔

[پاکستان میں جتنے بھی نۓ ٹی وی چینل کھلے ہیں ان میں شاید ایک آدھ کے سوا کوئی بھی قومی تعمیر میں حصہ نہیں لے رہا اور اکثریت نوجوان نسل کو بے راہروی پر لگا کر گمراہ کررہی ہے اور اس کا وقت ضائع کررہی ہے۔ اس طرح عوام کو تعیشات میں ڈال کر اہم قومی مسائل سے ان کی توجہ تو ہٹائی جاسکتی ہے مگر ملک کی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا]۔