پاکستان کی تاریخ میں آج کا دن ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ آج ایک بار پھر ایک آمر کی آئین میں کی گئی بیشتر ترامیم کو ختم کر دیا گیا ہے حتی کہ جنرل ضیاع کا نام بھی آئین سے نکال دیا گیا ہے۔ اب اس کامیابی کا سحرا کس کے سر باندھیں؟ آصف زرداری کے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے اختیارات ختم کر دیے یا کسی خفیہ ہاتھ کے جس کی منظوری کے بغیر پاکستان میں ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔ ویسے آفرین ہے آصف زرداری پر جنہوں نے اتنا بڑا دل جگرے والا کام کیا۔

کافی تبدیلیوں میں ایک تبدیلی جس کی نواز شریف کو سخت ضرورت تھی وہ نظر نہیں آئی یعنی تیسری بار وزیراعظم بننے کی شرط کا خاتمہ۔ ہمیں امید ہے جب جنرل بشرف کے اقدامات آئین سے حذف کئے گئے ہوں گے تو یہ شرط خود بخود ختم ہو گئی ہو گی۔

جس طرح صوبہ سرحد کا نام بدلنے سے پختونخوا کی قسمت نہیں بدلے گی اسی طرح آئین کو اپنی اصلی صورت میں واپس لانے کے بعد پاکستان کی قسمت نہیں بدلنے والی کیونکہ آئین تبھی کارآمد ہوتا ہے جب اس پر عمل کرنے والے مخلص اور محب وطن ہوں۔ فراڈیے، دھوکے باز اور کرپٹ حکمران آئین کا مذاق اڑانے کے سو بہانے اور طریقے ڈھونڈ لیتے ہیں اور ڈھونڈ لیں گے۔

ہم بھی آرٹیکل 17 کی شق 4 ختم کرنے کے خلاف ہیں۔ اس کی رو سے سیاسی جماعتوں میں سالانہ انتخابات کرانے کی شرط تھی جو اب ختم کر دی گئی ہے۔ پتہ نہیں سیاستدانوں نے اس ترمیم کے حق میں کیوں ووٹ ڈالے۔

اب سوچنے والی یہ بات ہے کہ صدر زرداری جب تمام اختیارات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو پھر ان کا اگلا داؤ کیا ہو گا۔ کیا وہ صدارت چھوڑ کر وزیراعظم بن جائیں گے؟ کچھ دنوں کے بعد صورتحال واضح ہونا شروع ہو جائے گی۔

فی الحال تو جشن منانے اور مٹھائیاں کھانے کا وقت ہے کیونکہ ایک بار پھر ڈکٹیٹروں کی کی گئی ترامیم آئین سے نکال دی گئی ہیں۔

اٹھارہویں ترمیم میں سب سے اچھی جو بات ہمیں پسند آئی ہے وہ آمر کے آئین میں تبدیلی کو سپریم کورٹ سے منظوری لینے کے اختیار پر پابندی لگا نا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ آئین میں اسے توڑنے والے کیلیے سزائے موت بھی رکھی گئی ہو گی۔