انسانی حقوق تنظیم کے سربراہ اور غائب افراد کی بازیابی میں متحرک کردار ادا کرنے والے ریٹائرڈ سکواڈرن لیڈر خالد خواجہ اغوا کے بعد قتل کر دیے گئے۔ خالد خواجہ کو صدر مشرف کی حکومت نے چند روز گرفتار رکھ کر تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ خالد خواجہ نے غائب افراد کی بازیابی کیلیے آمنہ جنجوعہ کیساتھ ملکر احتجاج جاری رکھا ہوا تھا۔

ان کے اغوا اور قتل کی ذمہ داری ایشین ٹائیگر تنظیم نے قبول کر لی ہے۔ انہوں نے حکومت سے کچھ مطالبات کیے تھے جو منظور نہ ہونے پر انہوں نے خالد خواجہ کو قتل کر دیا۔ ہمیں تو یہ تنظیم بھی جعلی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس تنظیم کے مطالبات کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی۔

خالد خواجہ کی لاش کیساتھ ملنے والے خط میں ان کے قتل کی دوسری وجہ بیان کی گئی ہے۔ یعنی انہیں جاسوس قرار دیا گیا ہے اور اغوا کی ویڈیو میں ان سے اس طرح کا بیان بھی جاری کرایا گیا تھا۔

مہینے سے زیادہ وہ اغوا رہے، نہ کسی نے انہیں بازیاب کرانے کی کوشش کی اور نہ واویلہ مچایا۔ خالد خواجہ کے قتل پر نہ تو عوام کو افسوس ہوا اور نہ ہی حکومت کے ایوانوں میں ہلچل مچی۔ انسانی حقوق کیلیے فرنٹ مین کا کردار ادا کرنے والا شہید کر دیا گیا اور خاموشی سے دفن بھی ہو گیا۔ نہ میڈیا نے اس شخص کے قتل پر احتجاج کیا اور نہ سول سوسائٹی سڑکوں پر نکلی۔

ہماری نظر میں ان کا قتل ایشین ٹائیگر نے نہیں بلکہ کسی اور نے کیا ہے اور ان کی ویڈیو دیکھ کر یقین ہونے لگتا ہے کہ ان کا قتل کرنے والے جاہل اور گنوار نہیں بلکہ انتہائی پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ لوگ لگتے ہیں۔ عام آدمی بھی اس سازش کو ماننے کیلیے تیار نہیں ہے اور وہ خالد خواجہ کے اغوا اور قتل کو معمہ سمجھ رہا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ خالد خواجہ کی شہادت کی باقاعدہ تفتیش کرے اور قاتلوں کا پتہ چلائے۔ وگرنہ حکومت کی خاموشی لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات کو جنم دے سکتی ہے۔

خالد خواجہ کے کردار کا دوسرا پہلو حامد میر اپنے کالم میں یہاں پیش کرتے ہیں۔