ہر معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی کی حدود و قیود مقرر ہیں۔ یہ حدود بچوں، بڑوں اور عورتوں کیلیے الگ الگ ہیں۔ سول سوسائٹی کے بھی قائدے اور قوانین مقرر ہیں۔ انہی قائدے قوانین میں اظہار رائے کی آزادی کے بھی قوانین ہیں اور انہی قوانین کا نتیجہ ہے کہ آدمی سوچ سمجھ کر موقع محل پر بولتا ہے۔ یورپ کے ہر سکول میں سب سے پہلے بچوں کو اٹھنے بیٹھنے اور بولنے سننے کے طور طریقے سمجھائے جاتے ہیں اور انہی طریقوں کی بدولت سکولوں میں ڈسپلن قائم ہوتا ہے جو آگے چل کر سول سوسائٹی کی بنیادوں کو مضبوط کرتا ہے۔

فرض کریں سکول میں کوئی طالبعلم اپنی اظہار رائے کی آزادی کے بل بوتے پر کسی سکول ٹیچر کیساتھ بدتمیزی پر اتر آئے تو کیا اسے کھلا چھوڑ دیا جائے گا؟

عدالت میں اگر اسی آزادی کو اپنا کر کوئی شخص جج کیخلاف بولنا شروع کر دے تو کیا اسے سیکیورٹی حکام کمرہ سے باہر نہیں نکال دیں گے؟

جب اسی آزادی کو استعمال میں لاتے ہوئے کوئی صحافی صدر بش کی طرف جوتا اچھال دے تو کیا اسے پریس کانفرنس میں بیٹھے رہنے دیا جائے گا؟
جب کوئی گرجے میں آدمی اٹھ کر پوپ یا پادری کیخلاف غلیظ زبان استعمال کرنا شروع کر دے تو کیا عیسائی اسے پھولوں کے ہار پہنائیں گے؟

یورپین نے کھیل دیکھنا ہو، فلم دیکھنی ہو یا شاپنگ کیلیے رقم کی ادائیگی کرنی ہو تو وہ قطار میں منٹوں انتظار کرتے رہتے ہیں تا کہ ان کے آگے والے لوگوں کی حق تلفی نہ ہو؟

مگر جب یہی مہذب لوگ مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہیں تو سارے قواعد و ضوابط بھول جاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ مسلمانوں کی محبوب شخصیت کا مذاق اڑا کر وہ سوا بلین لوگوں کے دل دکھا رہے ہیں۔ وہ اس وقت اظہار رائے آزادی کے طور طریقے کیوں بھول جاتے ہیں۔ انہیں سکول میں پڑھائے گئے سبق کیوں یاد نہیں رہتے؟

وجہ سیدھی سادھی ہے اور یونیورسل حقیقت ہے کہ غریب اور کمزور آدمی کا ہر کوئی مذاق اڑا سکتا ہے اور اسے ذلیل کر سکتا ہے مگر طاقتور کے آگے سب کی زبان پر تالے پڑ جاتے ہیں۔ انہی استادوں، ججوں، پادریوں اور پوپوں کی طرح اگر مسلمان بھی طاقتور ہوتے تو ہم دیکھنے کیسے کوئی ان کے نبی کے کارٹون مقابلے منعقد کرتا ہے اور کیسے وہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی جرات کرتا ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ اب نبی پاک کے جتنے مرضی برے خاکے شائع کیے جائیں کسی مسلمان کو کو ئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ کمزور ہے اور وہ کمزور آدمی کیطرح اپنے اندر ہی اندر تلملا کر چپ ہو جائے گا۔ نہ اسے اپنی حکومت کی حمایت حاصل ہو گی اور نہ مکے مدینے کے متولیوں کی کیونکہ ہر کوئی اپنی حکومت بچانے کے چکروں میں پڑا ہوا ہے۔ مسلمانوں کی یہ تضحیک تبھی بند ہو گی جب وہ متحد ہو کر فیس بک کا نہ صرف بائیکاٹ کریں گے بلکہ اس کے مقابلے مسلم فیس بک بنا ڈالیں گے۔ مگر ہم میں ابھی اتنی ہمت نہیں ہے کیونکہ ہماری لیڈرشپ بھی سوئی ہوئی ہے اور ہم بھی بکھرے ہوئے ہیں۔

مولانا ابتسام الہی ظہیر کے خیالات بھی کچھ اسی طرح کے ہیں۔