پچھلی پوسٹ میں ہمارے قاری جاوید گوندل صاحب نے اپنے تبصرے میں نبی پاک کے خاکوں کے بارے میں درست لائحہ عمل اپنانے کیلیے جو مشورہ دیا ہے وہ تبصرے سے زیادہ پوسٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے ہم اسے یہاں چھاپ رہے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں۔

پاکستان میں فیس بُک پر پابندی کوبجا طور پہ ایک احتجاجی علامت کہا جاسکتا ہے۔ مگر شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو باز رکھنے کے لئیے یہ حتمی حل نہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان سمیت تمام مسلمان ممالک نے جو اتنے وزارت خارجہ کے نام پہ وزارتیں قائم کر رکھی ہیں۔ وہ اس معاملے پہ متحرک ہوں۔ اور ایسے افراد اور اداروں کے خلاف عالمی سطح پہ ادراک واضح کریں اور اُن ممالک میں جہاں سے یہ شرارتیں اٹھتی ہیں وہاں موجود ہمدردانہ اور دانشورانہ سوچ رکھنے والے حکام اور افراد کو قائل کریں کہ ایسی حرکتوں سے دنیا کی آبادی کے ایک وسیع طبقے یعنی مسلمانوں کے جزبات کی توہین ہوتی ہے۔ جو بجا طور پہ انسانی حقوق میں آتی ہے۔ اور ایسا کرنے سے شدید ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ جس سے دنیا کے ایک بڑے حصے میں مغرب کے خلاف نفرت پھیلتی ہے۔ جبکہ دنیا کے موجودہ تلخ اور متشدد حالات کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے واقعات کو ایک عالمی حکمت عملی کے تحت روکا جائے۔انکی حوصلہ شکنی کی جائے، کہ نادیدہ ہاتھ ایک سازش کے تحت دنیا کا امن خراب کرنے کے درپے ہیں۔

نیز جن ممالک میں ایسے قوانین موجود ہوں اور جو یقینی طور پہ ہوں گے۔ وہاں ان قوانین کے تحت ایسے افراد اور اداروں کی خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔ جہاں اور جن ممالک میں انکی حکومتیں آزادی اظہار رائے کی قوانین کی آڑ لیکر ایسے واقعات کو روکنے پہ بظاہراپنی بے بسی ظاہر کر کے سارے معاملے سے الگ ہوجاتی ہیں۔ وہاں ایسے ممالک کو مختلف قسم کے سفارتی دباؤ سے قائل اور مجبور کیا جائے کہ وہ ایسی قانون سازی کریں جس میں ایسے قوانین کی آڑ میں مسلمانوں کی دل آزاری کا کوئی پہلو نہ نکلتا ہو۔

مغرب کے تقریبا سبھی ممالک میں یہودیوں کی حمایت میں ایسے قوانین موجود ہیں جس کے تحت معروف “ہولو کاسٹ” کے خلاف بات کرنا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کے اسقدر قتل غارت کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اور اسے موضوع بنانا سخت جرُم ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ممالک ملکر ایسی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ وہ اپنے ممالک کے مسلمان عوام جن کا عالمی سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں اور وہ امن کی زندگی جینا چاہتے ہیں۔ اُن مسلمان عوام کے لئے ایک ایسا عالمی قانون اقوام متحدہ یا کسی دوسرے فورم سے پاس کروانے کی جد جہد کیوں نہیں کرتے جس سے آئیندہ ایسے واقعات کا سد باب ممکن ہوسکے۔

کیا ایسی کوئی کوشش محض یہ کہ کر نہیں کی جانی چاہئیے کہ یوں ناممکن ہے۔؟ اس دنیا میں کچھ ناممکن نہیں کوشش شرط ہے۔ اور اس صورت میں جہاں دنیا کی آبادی کے ایک وسیع حصے کی اسقدر حکومتیں کوشش کریں۔

مسئلہ مسلمان حکومتوں اور حکام کے اخلاص اور نیتوں کا ہے۔