راولپور کے نواح میں ایک چھوٹا سا گاؤں جھونکاوالی کے نام سے مشہور ہے۔  1943 میں اس گاؤں کی آبادی پندرہ سو افراد پر مشتمل تھی۔ گاؤں کا جاگیردار رحمت داد وہاں کا نمبردار تھا اور باقی سارے لوگ اس کے مزارعے تھے۔ لوگوں کی اکثریت چونکہ مسلمان تھی اسلۓ سب سے بڑی عبادت گاہ وہاں پر جامع مسجد تھی۔ اس کے علاوہ گاؤں میں چار گھر ہندوؤں کے تھے اور دو سکھوں کے۔ انہوں نے اپنی اپنی عبادت کیلۓ وہاں پر مندر اور گردوارہ بھی بنا رکھا تھا۔ ہندو سود کا کاروبار کرتے تھے اور مزارعوں کی اکثریت ان کی قرض دار تھی۔ سکھ فوج میں ملازم تھے اور گاؤں میں صرف انہی کے گھر تھے جو جاگیردار کی غلامی سے بچے ہوۓ تھے۔ جامعہ مسجد کا امام صوفی غلام نبی اپنی شرافت اور نرم طبیعت کی وجہ سے مزارعوں کے بہت قریب تھا۔ مزارعے جب بھی کام سے فارغ ہوتے وہ مسجد آجاتے وہاں پر اپنے بچوںکیساتھ نماز بھی پڑھتے اور صوفی غلام نبی کے پاس بچوں کو قرآن پڑھنے بھی بھیجا کرتے تھے۔ جاگیردار بھی کبھی کبھار مسلمانی دکھانے کیلۓ مسجد کی طرف آنکلتا مگر اس کی گردن خدا کے سامنے جھکنے کے باوجود ہمیشہ اکڑی ہی رہتی۔

 صوفی غلام نبی عام اماموں سے ذرا ہٹ کر تھا۔ وہ گاؤں والوں سے مانگے کی روٹی پر گزارہ کرنے کی بجاۓ جاگیردار کے کھیتوں میں دن کو کام کرتا تھا اور ساتھ ساتھ امامت بھی کرتا تھا۔ صوفی غلام نبی قرآن کا ترجمہ تفسیر، احادیث کی تشریح پر عبور رکھتا تھا اور اسے عربی زبان بھی آتی تھی۔ چند سال قبل وہ سعودی عرب حج کرنے گیا تو ایک دن مکہ سے مدینہ جاتے ہوۓ وہ راستہ بھول کر ایک گاؤں میں داخل ہوگیا۔ اس گاؤں کی مسجد کے امام نے اسے اپنے گھر پر مہمان ٹھرا لیا۔ عربی خدا ترس آدمی تھا، اسے غلام نبی کی پتہ نہیں کونسی ادا پسند آئی، اس نے اسے اپنی بیٹی کیساتھ شادی کی دعوت دے دی۔ غلام نبی جس نے اس کی بیٹی کو دیکھا تک نہیں تھا عربی کی مہمان نوازی سے مرعوب ہوکر اس شرط پر رشتہ منظور کرلیا کہ پہلے لڑکی سے پوچھا جاۓ کہ وہ پاکستان ميں رہنا پسند کرے گی کہ نہیں۔ لڑکی جس کی تربیت خالص اسلامی ماحول میں ہوئی تھی اپنے باپ کی خواہش کے آگے جھک گئی اور غلام نبی جو کنوارہ حج پر گیا تھا شادی شدہ حاجی بن کر گاؤں واپس لوٹا۔

امام کي بيوي ہروقت پردے ميں رہتي تھي اور اسے کسي مرد نے آج تک نہ ديکھا تھا۔ جاگيردار کا ايک ہي بيٹا تھا جو انہتائي اوباش تھا۔ گاؤں کي عورتوں نے امام کي بيوي کي خوبصورتي کے قصے سارے گاؤں ميں مشہور کرديۓ۔ چوہدري کے بيٹے کے دل ميں امام کي بيوي کي خوبصورتي کي باتوں نے تجسس پيدا کيا اور اس نے پلان بناياکہ جب امام کھيتوں ميں کام کرنے گيا ہوگا وہ اس کے گھر کي ميں گھس کر اس کي بيوي کو زبردستي ديکھ کر آۓ گا۔ ايک دن گرميوں ميں دوپہر کا وقت تھا اور لوگ کھيتوں ميں کام پر گۓ ہوۓ تھےچوہدري کے بيٹے نے امام کے گھر جانے کا ارادہ کرليا۔ اس نےجب امام کے گھر کا دروازہ مقفل پايا تو ديوار پھلانگنے کيلۓ ديوار پر چڑھ گيا۔ جونہي اس نے ديوار سے گھر کے اندر چھلانگ لگائي وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور دونوں ٹانگيں تڑوا بيٹھا۔ گاؤں والوں نے اس کرني کو خدا کا عذاب جانا اور وہ امام کي بيوي کو اس کي پاکدامني کي بدولت اس مصيبت سے نجات کي وجہ سے پہنچي ہوئي بزرگ ماننے لگے۔  

 غلام نبی کی شادی ہوۓ دس سال ہوچکے تھے مگر وہ ابھی تک اولادِ نرینہ سے محروم تھا۔ ایک دن ایک بزرگ کا وہاں سے گزر ہوا اور اس نے مسجد میں نماز پڑھی۔ امام غلام نبی سے اس کی علیک سلیک ہوئی اور غلام نبی نے اس کی بزرگی سے متاثر ہوکر اسے چند روز کیلۓ مسجد میں مہمان رکھ لیا۔  بزرگ جتنے دن بھی وہاں پر رہا دن رات عبادت ہی کرتا رہا۔ اس نے جاتے ہوۓ امام غلام نبی کی خدمت کے صلے میں اسے دعا دی کہ خدا اسے سات بیٹے دے۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ بزرگ کو وہاں سے گۓ ہوۓ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ خدا نے اسے اولاد کی امید لگا دی۔ چودہ اگست 1947 کو جب پاکستان بننے کی خوشي میں  دوسرے علاقوں کی طرح جھونکا والی میں بھی لوگ جشن منارہے تھے تب امام غلام نبی کو خدا نے پہلی اولاد سے نوازا اور اس نے اپنے بیٹے کا نام اپنے قائد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلۓ محمد علی رکھا۔