بجٹ پیش ہو گیا اور لفظوں کے گورکھ دھندے میں گھرا یہ بجٹ بھی مزید مہنگائی لائے گا۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کمی کر کے دفاع کا بجٹ بڑھا دیا گیا ہے۔ ترقیاتی اخراجات کیلیے جتنا بھی بجٹ رکھا گیا ہے یہ کوئی حرف آخر نہیں ہے کیونکہ بجٹ کے آخری دنوں میں اس میں کٹوتی یقینی ہے۔ تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں مگر ان کے مقابلے میں آنے والے دنوں میں جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ اور ویٹ کا نفاذ اکتوبر میں ان تنخواہوں کے اضافے کی افادیت کو ختم کر دے گا۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کیلیے بجٹ میں کافی رقم رکھی گئی ہے۔ بجٹ کا اکیس فیصد قرضوں کی ادائیگی کیلیے مختص کیا گیا ہے۔ یہی رقم ہے جس کیلیے آئی ایم ایف نے سارا بجٹ ترتیب دیا ہے۔ اس رقم کے حصول کیلیے ٹیکس بڑھائے گئے ہیں۔

بنک سے رقم نکلوانے پر 0٫1 فیصد سرچارج تھا جو اب بڑھا کر 0٫3 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس سرچارج کی نہ پہلے سمجھ آئی تھی اور نہ اب سمجھ آتی ہے۔

بینظیر انکم سپورٹ بجٹ میں بیس ارب روپے کی کٹوتی کر دی گئی ہے۔

معاشی ماہرین کی اکثریت کی نظر میں پاکستان کی ترقی کی راہ میں کرپشن سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور حکومت چونکہ کرپشن میں ملوث ہے اسلیے اس کا خاتمہ مستقبل قریب میں ہوتا نظر نہیں آتا۔ ابھی تک پاکستان نے کشکول نہیں توڑا اور اس سال بھی آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے اور اگلے سال بھی لے گی۔ زرعی ٹیکس نہ لگانا بھی بجٹ میں خسارے کا سبب ہے۔