آجکل پاکستان کے سياسي مستقبل کي باتيں ہورہي ہيں اور ہر کوئي اپني سمجھ کے مطابق پيشين گوئياں کر رہا ہے۔ ہم چونکہ علمِ نجوم سے واقفيت نہيں رکھتے اسلۓ ہم پيشين گوئيوں کي بجاۓ قياس آرائياں کريں گے۔

جنرل صدر مشرف اور اس کے اتحاديوں کي خواہش ہے کہ ان کا سيٹ اپ چلتا رہے اور آنے والے انتخابات ان کي راہ ميں رکاوٹ نہ بنيں۔ بينظير بھٹو چاہتي ہيں کہ اگلے انتخابات ميں ان کي پارٹي جيتے اور وہ حکومت سنبھال ليں۔ نواز شريف چاہتے ہيں کہ جنرل صدر مشرف کا بوريا بستر اسي طرح گول ہوجاۓ جس طرح ان کا ہوا تھا اور وہ واپس آکر پھر ايوانِ اقتدار ميں براجمان ہوجائيں۔

ايم ايم اے والے اپنے موجودہ سيٹ اپ سے زيادہ کي کوشش نہيں کريں گے اور چاہيں گے کہ اگلے انتخابات بھي انہيں اتني ہي سيٹيں دلوا ديں تاکہ وہ ايک آدہ صوبائي حکومت کيساتھ ساتھ وفاقي حکومت ميں بھي اپنا اثرورسوخ قائم رکھ سکيں۔

ايم کيو ايم چاہے گي کہ جو بھي اقتدار ميں آۓ ان کو حکومت ميں شامل رکھا جاۓ۔

آئيں سياسي جماعتوں کي انہي خواہشات کو مدِ نظر رکھتے ہوۓ يہاں پر چند مفروضے گھڑتے ہيں۔

جنرل صدر مشرف موجودہ اسمبليوں سے دوبارہ منتخب ہوجائيں گے اور وہ اس وقت منتخب ہوں گے جب اليکشن قريب ہوں گے۔ اس وقت سياسي جماعتوں کو ان کے انتخاب سے زيادہ اگلے انتخابات جيتنے کي فکر ہوگي اور وہ جنرل مشرف کيلۓ کوئي خطرہ ثابت نہيں ہوں گے۔

فرض کريںحزبِ اختلاف کي جماعتيں ان کے انتخاب کي بھنک پڑتے ہي اپني سيٹوں سے استعفے دے ديتي ہيں تب بھي جنرل مشرف باقي ماندہ اراکين سے ووٹ لے کر صدر منتخب ہوجائيں گے اور سياسي جماعتيں عوام کو ايک بار پھر سڑکوں پرلانے ميں ناکام ہوں گي۔ اس کے بعد انتخابات ہوں گے جن کا بائيکاٹ کرکے حزبِ اختلاف جنرل ضيا دور والي غلطي پھر دھرائے گي۔

ايک مفروضہ يہ ہے کہ جنرل صدر مشرف اوران کے اتحادي اگلے انتخابات ميں ہر حال ميں جيت جائيں گے اور اس دفعہ انہيں کسي کے ساتھ اتحاد بنانے کي بھي ضرورت پيش نہيں آۓ گي۔ اس صورت میں ظاہر ہےجنرل مشرف ہي صددر رہيں گے۔ سياسي پارٹياں ہاتھ ملتي رہ جائيں گي اور عوام اپني روٹي کے چکر ميں پڑ جائيں گے۔

ايک مفروضہ جس کے امکانات بہت کم ہيں وہ يہ ہے کہ پاکستاني عوام جاگ پڑتي ہے اور وہ سارے پرانے برج الٹ ديتي ہے۔ جنرل صدر مشرف کي مسلم ليگ ق مکمل طور پر شکتست کھا جاتي ہے۔ اس صورت میں بھي جيت جنرل مشرف کي ہوگي۔ وہ اس انہوني صورتحال سے نکلنے کيلۓ ملک ميں مارشل لگا ديں گے اور خود چيف مارشل لا ايڈمنسٹريٹر بن جائيں گے۔

ہاں ايک اور مفروضہ جس کے امکانات بھي ہوسکتے ہيں اور وہ يہ ہے کہ اگر جنرل مشرف دھاندلي سے جيتتے ہيں اور عوام سڑکوں پر نکل آتے ہيں يا پھر وہ ہارجاتے ہيں، دونوں صورتوں ميں فوج جنرل صدر مشرف کيخلاف بغاوت کردے گي اور کوئي اور غلام حکومت سنبھال لے گا اور جنرل مشرف صاحب کو نظربند کرديا جاۓ گا۔

ايک مفروضہ جو انتہائي ناممکن ہے مگر اصل جمہوريت کا عکاس ہوگا وہ يہ ہے کہ پاکستاني عوام وڈيروں، جاگيرداروں اور صنعت کاروں کو چھوڑ کر عام وکيلوں اور انصاف پسند لوکل ليڈرشپ کو منتخب کرليتي ہے جو اپني عوامي طاقت کے بل بوتے پر جنرل صدر مشرف کو گھر کي راہ دکھا کر ملک ميں مکمل جمہوريت بحال کرديتي ہے۔ اس صورت ميں ہمارے آقا ناراض ہوجائيں گے مگر پاکستاني عوام کسي آقا واقا کي پرواہ نہ کرتے ہوۓ ملک کي دل و جان سے خدمت شروع کرديں گے۔ ملک ميں امن و امان کي صورتحال پلک جھپکتے ہي بہتر ہوجاۓ گي اور عام آدمي بھي چين کي نيند سونے لگے گا۔

ان سارے مفروضوں کا لبِ لباب يہي ہے کہ سکہ سيدھا پڑے يا الٹا جيت جنرل صدر مشرف کي ہي ہوگي کيونکہ ان کا متبادل ابھي تک ان کے آقاؤں کو دستياب نہيں ہوسکے گا يا پھر وہ اپنے آقاؤں کي خدمت ميں ہرکسي کو پيچھے چھوڑ جائيں گے۔ چاہے ملک بجلي کے بحران کا شکار ہوجاۓ، پاني کي قلت ہو جاۓ، يا مقامي صنعت تباہ ہوجاۓ جنرل صاحب کے خلاف بغاوت نہيں ہوگي اور جو کوئي کوشش کرے گا اس کا حشر غداروں جيسا ہوگا۔ ابھي وہ وقت نہيں آیا کہ عوام کي انکھيں کھل جائيں يا پھر سياستدانوں ميں کوئي محبِ وطن پيدا ہوجاۓ۔

اس کے علاوہ اگر کوئي اور مفروضہ آپ کے ذہن ميں ہو تو ہمارے ساتھ شيئر کرسکتے ہيں۔ وقت آنے پر کامياب ترين مفروضے کے باني کا ذکر ہم دوبارہ کريں گے۔