پاکستان میں ریلوے کا نظام برطانوی راج کے دوران قائم ہوا اور بعد میں ریلوے ٹریک کچھ زیادہ نہیں بچھائے گئے۔ ہاں بھاپ کے انجنوں کو ڈیزل اور بجلی کے انجنوں سے تبدیل کر دیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد ریلوے نے پاکستان کی معیشت میں بہت اہم رول ادا کیا۔ مال بردار ٹرینیں کراچی سے پشاور اور کوئٹہ تک سامان لاتی لے جاتی رہیں۔ ریلوے کی اہمیت کو اگر کسی نے تھوڑا کم کیا تو ٹریلرز نے۔ پہلے فوجی سازوسامان کی نقل و حمل ریلوے کے ذریعے ہوا کرتی تھی۔ ہمیں ابھی تک یاد ہے اکہتر کی جنگ میں بھارت نے ہمارے شہر کے ریلوے سٹیشن پر فوجی سامان سے لدی ریل گاڑی پر گولیاں برسائیں تھیں۔ اب نيٹو کی سپلائی بھی ٹریلرز پر ہو رہی ہے۔

ہم نے بھی شروع میں ریل گاڑی پر سفر کیا۔ ہمیں یاد ہے لاہور اور راولپنڈی کام کرنے والے ملازمین دور دور سے ریل گاڑی سے آیا کرتے تھے۔ کراچی آنے اور جانے والی ریل گاڑی کی شان ہی الگ ہوتی تھی۔ جب یہ پشاور کی طرف سے آتی تو پٹھانوں نے تمام سیٹیں نہ صرف گھیر رکھی ہوتی تھیں بلکہ ڈبوں کے دروازے بند کر رکھے ہوتے تھے۔ اسی طرح کراچی سے آنے والے اتنے لمبے سفر کے بعد پہچانے نہیں جاتے تھے۔ کوئلے اور ڈیزل کا دھواں ان کی شکلوں اور لباس کو کالا کر دیا کرتا تھا۔

اب زمانہ بدل گیا ہے۔ شاید چمک دار سڑکوں پر تیزرفتار گاڑیوں نے ریلوے کی اہمیت کو کم کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریلوے کا محکمہ یکے بعد دیگرے اپنی ٹرینیں بند کرنے لگا ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو وہ وقت دور نہیں جب ریلوے کا محکمہ ہی بند ہو جائے گا۔

ریلوے کے وزیر کا کہنا ہے کہ وہ یہ سب کچھ خسارہ کم کرنے کیلیے کر رہے ہیں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ اس طرح ریلوے کا خسارہ کم ہو۔ اگر وزیرموصوف ریلوے کا محکمہ چلانے کے قابل نہیں ہیں اور خسارے کو کم نہیں کر سکتے تو پھر اسے پرائیویٹائز کر دینا چاہیے۔ حیرانی ہے مشرف دور میں بہت سارے منافع بخش ادارے بیچ دیے گئے مگر ریلوے، واپڈا اور پی آئی اے جیسے ہمیشہ خسارے میں رہنے والے محکمے پرائیویٹائز نہیں کئے۔ موجودہ حکومت بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہی بلکہ شارٹ کٹ سے کام چلا رہی ہے۔