ابھی تک ہم یہ تو سنتے آۓ ہیں کہ فلاں شخص نے کاروبار خسارے میں جانے کی وجہ سے بند کردیا یا فلاں ادارے نے گھاٹے کی وجہ سے بنگ کرپسی داخل کردی مگر آج تک یہ نہیں سنا کہ کسی نے اپنے منفعت بخش کاروبار کو اونے پونے داموں غیروں کو بیچ دیا ہو۔ منافع بخش کاروبار کو فروخت کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے یعنی آپ نے اپنی روزی پر خود ہی پابندی لگا دی۔ اس پر طرہ یہ کہ اگر کوئی شخص اپنا کاروبار اپنے شریکوں کے ہاتھ فروخت کرے تو پھر اس کی عقل پر شک ہونے لگتا ہے۔

اسی طرح کے کام ہماری موجودہ حکومت کررہی ہے۔ حکومت نے پہلے پی ٹی سی ایل اور بنکوں کر فروخت کیا اور وہ بھی غیرملکیوں کے ہاتھوں۔ اس کے بعد سٹیل مل کی نج کاری کا گھپلا سپریم کورٹ کی مداخلت کی وجہ سے وقتی طور پر ٹل گیا۔ اب حکومت پاکساتن سٹیٹ آئل کو فروخت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں تیل کا کاروبار سرکاری کنٹرول میں ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ کاروبار کبھی خسارے میں نہیں رہا۔ پتہ نہیں حکومت کس منطق کی رو سے منافع بخش سرکاری اداروں کی نج کاری کررہی ہے اور وہ بھی غیر ملکیوں یعنی اپنے شریکوں کو بیچ رہی ہے۔ ہمارے معیشت دانوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ قومی اور حساس اداروں کو غیرملکی کمپنیوں کے ہاتھ بیچ کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد ڈالی جارہی ہے۔

یہ بات تو ماننے والی ہے کہ ہمارے دوہری شہریت رکھنے والے وزیرِ اعظم اور دوسرے وزیر مشیر سرکاری اداروں کو غیرملکی یعنی اپنی دوسری شہریت کے ملکوں کے اداروں کے ہاتھ بیچ کر حقِ نمک ادا کررہے ہیں مگر اپنے خالص پاکستانی وزیروں مشیروں اور دوسرے حکومتی کارندوں کی عقل پر پتہ نہیں کیوں پردہ پڑ گیا ہے جو وہ بھی دوہری شہریت رکھنے والوں کی تقلید کرتے ہوۓ سرکاری اداروں کو غیرملکی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کی سازش میں شامل ہیں۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ خالص پاکستانی بھی اپنے ملک کے مستقبل سے مایوس ہیں اور وہ مصیبت کے وقت متبادل رہائش کا پہلے ہی سے بندوبست کررہے ہیں۔

یہ تو ہر کوئی مانتا ہے کہ سرکاری اداروں کی نج کاری ميں حکومتی سیاستدانوں اور افسروں نے اپنی ذاتی تجوریاں کمیشن لے کر بھر لی ہوں گی مگر ہم حیران ہیں کہ ان وزیروں سفیروں اور افسروں کو یہ سوچ کر ذرا بھی ڈر نہیں لگتا کہ وہ اپنی آئندہ آنے والی نسل کا کنٹرول غیروں کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں۔ غریبوں کی زندگیاں غیرملکی کمپنیوں کے فیصلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہیں اور حتی کہ ملک کو ایک لحاظ سے رہن رکھ رہے ہیں۔ پہلے عالمی بنک اور آئی ایم ایف کیا کم تھے جو اب غیرملکی کمپنیوں کو اداروں پر کنٹرول کے اختیارات سونپے جارہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو پھر ہمارا قومی بجٹ جو پہلے ہی عالمی بنک اور آئی ایم ایف کی نگرانی میں تیار ہوتا ہے پھر غیرملکی کمپنیوں کی اجازت کے بغیر تیار نہیں ہوپایا کرے گا۔

اب بھی وقت ہے اور حکومت کو چاھۓ کہ کم از کم ملکی معیشت دانوں کی اکثریت کی اپیل مان لے اور پاکستان سٹیٹ آئل کی نج کاری کا ارادہ ترک کردے۔ اس نیک کام میں جس نے بھی حصہ ڈالا اس کے احسان کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔