صوبائی وزیر بہبود آبادی ظل ہما عثمان کے قتل کی خبر پڑھ کر اپنے تو رنگٹے کھڑے ہوگئے۔ بیٹوں سے ان کی ماں چھین لی گئ اور آدمی سے اس کی بیوی۔ ایک جنونی مولوی محمد سرور مغل نے سب کی آنکھوں کے سامنے اسے قتل کردیا۔

 قاتل مولوی سرور مغل وہ شخص ہے جو پہلے بھی کئی طوائفوں کے قتل کرنے کا اقرار کرچکا ہے مگر عدالتوں سے باعزت بری ہوچکا ہے۔ وہ رہا کس طرح ہوا یہ الگ داستان ہے۔

ظل ہما اسلۓ قتل ہوئی کہ ایک شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے کی راۓ میں اسلام عورتوں کی حکمرانی کو جائز قرار نہیں دیتا۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ کیا واقعی اسلام عورتوں کی حکمرانی کی اجازت نہیں دیتا۔

ظل ہما اس لئے قتل ہوئی کہ ہماری پولیس اس شخص کی نگرانی نہ کرسکی جو سر عام طوائفوں کو قتل کرنے کا اقرار کرچکا تھا اور اس کے خلاف قتل کے مقدے بھی درج ہوئے تھے مگر وہ بعد میں بری ہوگیا۔ پولیس کو چاہیے تھا کہ اس شخص پر نظر رکھتی اور اگر سمجھتی کہ وہ سوسائٹی کیلۓ خطرناک ہے تو اسے نظربند کردیتی۔

ظل ہما اسلۓ قتل ہوئی کہ ہمارا معاشرہ رواداری اور درگزری سے کوسوں دور ہوتا جارہا ہے۔ حکومت سمیت ہرکوئی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کررہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتوں پر عدم اعتماد کی وجہ سے فیصلے عدالتوں سے باہر ہونے لگے ہیں۔

ظل ہما اسلئے قتل ہوئی کہ مہنگائی، بے حیائی، لوٹ کھسوٹ اور بے اعتنائی نے پورے معاشرے کو حسد اور غصے کا شکار بنا دیا ہے۔ ہرکوئی بات بات پر جھگڑنے اور حتی کہ قتل کرنے کیلۓ فورأ تیار ہوجاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غصے پر قابو پانے کے طریقے ڈھونڈے اور ان پر عمل بھی کرائے۔

ظل ہما اسلئے قتل ہوئی کہ وہ عورت تھی اور مرد کو عورت کی غلامی قبول نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے اور عورت کو گھر اور باہر ہر جگہ دوسرے درجے کا انسان سمجھا جاتا ہے۔

ظل ہما اسلئے قتل ہوئی کہ حکومت کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی دوڑ کی رفتار کچھ زیادہ ہی تیز ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ پہلے پاکستانی معاشرے کے رجحانات کا مطالعہ کرتی اور پھر آہستہ آہستہ تبدیلی لاتی۔ حکومت نے دنوں میں ہر جگہ عورتوں کو بٹھا کر ان کیلۓ خطرات پیدا کردیے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ عورتوں کی آزادی اتنی تیزی سے نہ پھیلائیں کہ مردوں کو یہ ہضم ہی نہ ہوپاۓ۔ عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ آزادی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں اور آزادی کا استعمال تہذیب کے دائرے میں رہ کر کریں۔ حکومت نے اگر عورتوں کو ہر محکمے میں ٹھونسنے کی کوششیں کی ہیں تو پھر اسے عورتوں کی حفاظت کا بندوبست بھی کرنا چاہیے۔ مردوں کو بھی چاہیے کہ اگر انہیں عورتوں کی غلامی قبول نہیں تو غصے میں کوئ غلط قدم اٹھانے کی بجاۓ ٹھنڈے دماغ سے کام لیں اور اپنی عورتوں کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈیں۔

وقت تیزی سے بدل رہا ہے۔ پچھلے سات سال میں جتنے مخلوط تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آچکا ہے، جتنے ٹی وی مخلوط پروگرام شروع ہوچکے ہیں، جتنی عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ ملازمتیں دی گئی ہیں اتنی تیزی سے تبدیلی ہمارے معاشرے نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مرد عورتوں سے خار کھانے لگے ہیں۔ حالانکہ مردوں کو چاہیے تھا کہ وہ اس زنانہ آزادی کا مردانہ وار مقابلہ کرتے اور اسے تہ دل سے قبول کرتے۔