معاشرتی تنزلی کی وجہ سے وارداتیں اب اتنی بڑھ چکی ہیں کہ انہیں تھوک کے حساب سے ایک ہی خبر میں سمیٹنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ انگریز کے دور میں عورت رات کو اکیلی جہاں چاہتی جا سکتی تھی اور کوئی اسے میلی نظر سے نہیں دیکھتا تھا۔ اب بھی انگریزوں کے ملکوں میں یہی حال ہے۔ ہر معاشرے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں مگر اکثریت کیسی ہے اس کی عادات کو دیکھ کر معاشرے کی صحت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ امریکہ میں بھی جرائم ہیں مگر امریکہ کا معاشرہ اب بھی پاکستان کی تیس اور چالیس کی دہائی کے اچھے معاشرے کی طرح ہے۔

 دور جانے کی ضرورت نہیں ہم نے خود ستر اسی کی دہائیوں میں راتوں کو سفر کیا اور آدھی آدھی رات کو پیدل ٹرین سٹیشن اور بس سٹاپ سے گھر بخیریت پہنچے۔ راتوں کو آنکھ مچولی پورے شہر کی گلیوں میں کھیلنے کا رواج تھا اور آدھی آدھی رات تک لڑکے گلیوں میں کھیلتے رہتے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب تو راتوں کو باہر نکلنا معدوم ہوتا جا رہا ہے۔

اب حالات یہ ہیں کہ ہمارے ایک عزیز کا بیٹا امریکہ سے کراچی میڈیکل کالج میں پڑھ رہا ہے۔ ان کی بیٹی نے بھی میڈیکل میں جانا تھا مگر ان کے بیٹے نے اپنی بہن کو کراچی بھیجنے کی مخالفت کی اور اسے امریکہ یا کریبین میں ہی پڑھانے کا مشورہ دیا۔ ہم نے ان سے پوچھا کراچی تو سولائزڈ شہر ہے اور پھر آپ کا بیٹا تو ہاسٹل میں رہتا ہو گا۔ کہنے لگے وہ ہمیشہ ریڈیو کیب پر سفر کرتا ہے۔ ایک دن جب ریڈیو ٹیکسی نہ ملی تو اس نے عام ٹیکسی کرائے پر لے لی۔ ٹیکسی والے نے دو چار اور لوگ بھی بٹھا لیے۔ جب وہ آخر میں اکیلا رہ گیا تو ایک اشارے پر اسے گن پوائنٹ پر لوٹ لیا گیا۔ اسی طرح وہ پھر گلی میں چلتے لٹ گیا۔

ہمارے بھتیجوں بھانجوں میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو گا جو اب تک گن پوائنٹ پر نہیں لٹ چکا۔ ہمارے دوست کا بھتیجا تو ایک ہی جگہ پر دو دفعہ لٹ چکا ہے۔ حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ حکومت نے آج تک لا اینڈ آرڈر کی طرف توجہ نہیں دی۔ لوگوں کی فرسٹریشن کا یہ حال ہو چکا ہے کہ وہ انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لینے لگے ہیں۔

اگر یہی حالات رہے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان صومالیہ بن جائے گا۔ جہاں جگہ جگہ وارلارڈز کی حکومت ہو گی اور امراء دبئی اور لندن کو رخت سفر باندھ چکے ہوں گے۔ ہمیں بھی لگتا ہے کہ ملک خونی انقلاب یا انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے مگر اس کی رفتار سست ہے۔ ابھی انارکی پھیلنے میں ایک یا دو دہائیاں لگ سکتی ہیں۔